پروین شاکر کا موضوع محبت رہا ہے لیکن اُس نے محبت کی جو کیفیات بیان کی
ہیں وہ خالصتاً روحانی نہیں ۔ اس میں جسم کا لمس او ر جنسیت کا عمل بھی موجود ہے۔ انھوںنے
مخصوص انداز میں نسوانی مسائل بیان کےے ہیں ۔ لہٰذا ان کے ہاں نسوانی جذبات لمس کی
کیفیات اور خاص کر دوری کے عمل سے پیدا ہونے والا انتشار موجود ہے۔
کمالِ ضبط کو خود بھی تو آزمائوں گی
میں اپنے ہاتھ سے اُس کی دلہن سجائوں گی
جواز ڈھونڈ رہا تھا نئی محبت کا
وہ کہہ رہا تھا کہ میں اُس کو بھو ل جاؤں گی
پروین شاکر کی شاعر ی میں دوری کا المیہ بہت زیادہ ہے مثلاً
اب بھی برسات کی راتوں میں بد ن ٹوٹتا ہے
جاگ اٹھتی ہیں عجب خواہشیں انگڑائی کی
محسن نقوی بھی اسی روایت کے شاعر ہیں جنہوں نے محبت کے حوالے سے خوبصورت
اشعار کہے ہیں ۔اس کے علاوہ انقلاب کے حوالے سے اور جدید میں فرد کی محرومیوں اور تنہائی
کے حوالے سے بہترین اشعار غزل میں کہے ہیں ۔شخصی انانیت کا رویہ محسن نقوی کی پہچان
ہے ۔ انھیں اپنی ذات کا احساس ہے جو جگہ جگہ ہمیں اس کی غزل میں ملتا ہے۔ محبت کی کیفیات
کو کچھ اس طرح شعر میں سمویا ہے
بچھڑکے مجھ سے کبھی تو نے یہ بھی سوچا ہے
ادھورا چاند بھی کتنا اداس لگتا ہے
اُسے گنوا کے زندہ ہوں اس طرح محسن
کہ جیسے تیز ہوا میں چراغ جلتا ہے
بچھڑتے وقت سے اب تک میں یوں نہیں رویا
وہ کہہ گیا تھا یہی وقت امتحاں کا ہے
انقلابی حوالے سے ان کا ایک شعر ملاحظہ ہو
میں سرِ مقتل حدیث ِزندگی کہتا رہا
انگلیاں اُٹھتی رہیں محسن میرے کردار پر
افتخار عارف کا تعلق بھی فیض کی روایت سے رہا ہے ۔ انہوں نے کربلا کے واقعے
کو لے کے ہماری غزل میں سماجی مسائل سے ملا دیا ہے۔ دوسرا حوالہ ان کی وطن سے محبت
کا ہے۔
میرے خدا مجھے اتنا تو معتبر کر دے
میں جس مکان میں رہتا ہوں اُس کو گھر کر دے
میں اپنی خاک سے کٹ کر جیوں تو میرے خدا
اجاڑ دے میری مٹی کو در بدر کر دے
7070کی دہائی میں کچھ ایسے شاعر بھی ہمارے سامنے
آتے ہیں جن کے ہاں وطن،زمین ، تاریخ اور اطیری ، مذہبی اور تہذیبی رجحان ملتا ہے۔ یہ
شاعر اس ماحول میں رہتے ہوئے بھی تاریخ میں رہتے ہیں جس شخص کے ہاں یہ رجحان سب سے
زیادہ وہ ثروت حسین ہیں۔
ثروت حسین کا ایک مجموعہ ”خاکدان “ شائع ہوچکا ہے۔ انہوں نے خو د کشی کر لی تھی۔ ان کی غزل
میں ہمیں اساطیر اور تاریخ کی طرف سفر نمایاں ہے۔ اس کے علاوہ مذہبی تلمیحات بھی ان
کے ہاں نمایاں ہیں ۔ ان کی غزل میں شہزادے ، شہزادی ، پریزاد ، چاند ، ستارے جیسے الفاظ
عام ہیں۔ وہ ایسا شخص ہے جو خوابوں میں رہتا ہے۔
کبھی تیغ ِ تیز سپرد کی کبھی تحفہ گل تر دیا
کسی شاہزادی کے عشق نے میرا دل ستاروں سے بھر دیا
زمین چھوڑ کر نہیں جائوں گا نیا ایک شہر بسائوں گا
میرے وقت نے میرے عہد نے مجھے اختیار اگر دیا
اُن کے ہاں خواب زیادہ ہیں اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ دنیا
معدوم ہونے والی ہے اور یہی بے اطمینانی اُن کو موت کی طرف لے آتی ہے۔
قسم ہے آگ اور پانی کی
موت اچھی ہے بس جوانی کی
موت کے درندے میں اک کشش تو ہے ثروت
لوگ کچھ بھی کہتے ہوں خود کشی کے بارے میں
غلام محمد قاصر ان کی غزل میں کلاسیکیت اور اساطیر سے وابستگی زیادہ ہے ۔ اور
اپنے اس کیفیت سے وہ ایک داستانوی ماحول بناتا ہے اور ہمیں ایک قدیم اساطیر اور تہذیب
کی طرف لے جاتا ہے۔ لہٰذا اس کے ہاں تلمیحاتی نظام مضبوط ہے۔
کتاب ِ زندگی رکھتے ہیں تابِ زندگی کم ہے
نئے کردار ہیں ہم لوگ اگلی داستانوں کے
اُن کی اس کیفیت سے کئی راستے پھوٹے ایک تو یہ کہ جب اُس نے
جدیددور کا مطالعہ کیا تو اُس نے محسوس کیا کہ یہاں محبت کی کمی ہے ۔ اور زمین پر محبت
کا فقدا ن ہے۔ اور یہاں سے ہمیں کہیں اور جانا پڑے گا ۔ اور اس لیے انھوں نے اپنی طرح
کے انسانوں کے اس قسم کے شعر کہے۔
کروں گا کیا جو محبت میں ہو گیا ناکام
مجھے تو اور کوئی کام بھی نہیں آتا
اکیلا دن ہے کوئی اور نہ نہ تنہا رات ہوتی ہے
میں جس پل سے گزرتا ہوں محبت ساتھ ہوتی ہے
جلیل کے ہاں غزل میں تہذیبی اور ثقافتی عناصر شامل ہیں ۔ اُن
کے کچھ پرانے خوب ہیں ، وجود کے اندر پرانی دیواریں ہیں جن کو وہ اس عہد میں پیٹ رہے
ہیں۔
اظہار الحق کے ہاں مسلم تہذیب کے نشیب و فراز موجود ہیں خاص کر تہذیبی نقوش موجود ہیں۔ ان
کی لفظیات میں داستانوی رنگ نمایاں ہے ۔ جس میں غلام ، محل اور شاہزادے موجو د ہیں۔
صابر ظفر کی غزل میں ہمارے عہد کے کچھ مسائل ہیں ۔ ان کے ہاںایک طرف احساسات اور جذبات ہیں
اور دوسری طرف ہماری نئی معاشرتی قدریں ہیں۔لیکن جدید حسیات کا وہ جہاں بھی ذکر کرتا
ہے پس منظر میں ہماری تہذیب اور روایات موجود ہیں۔ وہ دونوں سلسلوں کو لیکر آگے بڑھتا
ہے وہ نئے دور کی کچھ تصویریں بھی دکھاتا ہے ان تصویروں میں تنہائی، محرومی ، سناٹے
اور خاص کر بے یقینی کی فضا موجود ہے مثال کے طور پر اُن کی ایک مشہور غزل ملاحظہ ہو
دریچہ بے صدا کوئی نہیں ہے
اگرچہ بولتا کوئی نہیں ہے
میں ایسے جمگھٹے میں گر گیا ہوں
جہاں میرے سواکوئی نہیں ہے
کھلی ہیں کھڑکیاں ہر گھر کی لیکن
گلی میں جھانکتا کوئی نہیں ہے
جمال احسانی کا رویہ مادی اور معاشی دنیا میں ایک روحانی فرد کا ہے جو بہت
چاہنے کے باوجود بھی معاشرے کے مادی اقدار کا حصہ نہ بن سکا اس لیے ان کا تخلیل ان
کو ایک غیر مادی معاشرے کی طرف لے جاتا ہے ۔جو شاید تاریخی ہو سکتا ہے۔
تیرا انجام ہو اجو وہی ہونا تھا جمال
اس جہاں میں تو کسی اور جہاں کا نکلا
دراصل ان کی شاعر ی کا اصل موضوع دکھ ہے۔ جس کے باقی شعراءسے
نوعیت مختلف ہے۔ اُن کا دکھ ذات سے شروع ہوتا ہے جس میں محبت کے دکھ بھی شامل ہو جاتے
ہیں اور اس طرح اس کا دکھ ہمسائے کی طرف سفر کرتا ہے اور جب و ہ سے ان کی ذات میں لوٹتا
ہے تو اس میں بہت سے سماجی ، تہذیبی اور معاشرتی اور روحانی زاوےے بھی شامل ہو چکے
ہوتے ہیں ۔ اور پھر وہ دکھ ذات کا نہیں بلکہ ہر چیز کا دکھ بن جاتا ہے۔
چراغ سامنے والے مکان میں بھی نہ تھا
یہ سانحہ میرے وہم و گمان میں بھی نہ تھا
محبت اس دکھ میں بہت بڑا عنصر ہے
یہ کس مقام پہ سوجھی تجھے بچھڑے کی
کہ اب تو جاکے کہیں دن سنورنے والے تھے
ابھی تو منزل ِ جاناں سے کوسوں دور ہوں میں
ابھی تو راستے ہیں یاد اپنے گھر کے مجھے
ان کے ہاں عشق دو طرفہ ہے لیکن مسئلہ ذات کے دکھ اور اس کی انانیت
کا ہے جہاں محبت کرنے والے کو بھی کوئی محبت نہیں دے سکتا۔
جو لکھتا پھرتا ہے دیوار و در پہ نام میرا
بکھیر دے نہ کہیں حرف حرف کرکے مجھے
اس کے علاوہ غلام حسین ساجد ، سلیم کوثر ، خالد احمد اور سجاد
بابر وغیرہ بھی70 کے دہائی کے اہم شاعر ہیں ۔
پاکستانی غزل ایک طویل ارتقائی سفر طے کرنے کے بعد آج جام مینا،
گل و بلبل ، اور محبوب کے فرضی تصورات سے نکل کر جیتی جاگتی ، رواں دواں زندگی کی ٹھوس
حقیقتوں سے نبرد آزما ہے۔ نئے شعرا نے نئے لفظیات اور نئی علامتوں کو متعارف کروایا۔
الغرض قیام پاکستان سے لیکر سقوط ڈھاکہ تک ، جہاد افغانستان سے لے کر روس کے زوال تک
، نیوورلڈ آڈر سے لے کر کشمیر تک اور بوسنیا میں ڈھائے جانے والے مظالم تک کوئی اہم
واقعہ یا حادثہ ایسا نہیں جس کا عکس پاکستانی غزل میں نہ آیا ہو۔ بلکہ پاکستان کی مکمل
تہذیبی اور سماجی تاریخ پاکستانی غزل کے آئےنے میں واضح نظرآتی ہے۔اور ہمیں ایک نیا
اور پر امید اور حوصلہ کن پیغام دیتی ہے۔
0 comments:
آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔