میں نے دیکھا تھا ان دنوں میں اسے
جب وہ کھلتے گلاب جیسا
تھا
اْس کی پلکوں سے نیند چھنتی تھی
اْس کا لہجہ شراب جیسا
تھا
اْس کی زلفوں سے بھیگتی تھی گھٹا
اْس کا رْخ ماہتاب جیسا
تھا
لوگ پڑھتے تھے خال و خد اْس کے
وہ ادب کی کتاب
جیسا
تھا
جب وہ ہنس ہنس کے بات کرتا تھا
دل کے خیمے میں رات کرتا تھا
رنگ پڑتے تھے آنچلوں میں اْسے
بولتا تھا زبان خوشبو کی
لو گ سنتے تھے دھڑکنوں میں اْسے
ساری آنکھیں تھیں آئنیے اْس کے
سا رے چہروں میں انتخاب تھا وہ
سب سے گھل مل کے اجنبی رہنا
ایک دریانما سراب تھا وہ
خوا ب یہ ہے کہ وہ حقیقت تھا
یہ حقیقت ہے کوئی خواب تھا وہ
دل کی دھرتی پہ آسمان کی طرح
صورتِ سایہ و سحاب تھا وہ
اپنی نیندیں اْسی کی نذر ہوئیں
میں نے پایا تھا رت جگوں میں اْسے
یہ مگر دیر کی کہانی ہے
یہ مگر دور کا فسانہ ہے
اْس کے میرے ملاپ میں حائل
اب تو صدیوں بھرا زمانہ ہے
اب تو یوں ہے کہ حال اپنا بھی
دشتِ ہجراں کی شام جیسا ہے
کیا خبر اِن دنوں وہ کیسا ہے؟
میں نے دیکھا تھا اْن دنوں میں اْسے
جب وہ کھلتے گلاب جیسا تھا۔۔۔
0 comments:
آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔