ادا جعفری کی شاعری میں بنیادی طور پر دو چیزیں شامل ہیں پہلی تہذیبی رویوں سے اسکے جذبے کا منسلک ہونا اور دوسری عورت ہونے کے ناطے عورتوں کے جذبات ، احساسات کی ترجمانی کرنا ہے۔ان کی شاعری میں محبت لطافت اور کچھ خارجی مسائل کا ذکر بھی ملتا ہے۔ ادا نے سادہ اور خوبصورت غزلیں کہی ہیں۔
ہونٹوں پہ کبھی اُن کے میرا نام بھی آئے
آئے تو کبھی برسرِالزام بھی آئے
میں نے سونپ دی جس کو کائناتِ جاں اپنی
وہ خدا نہ تھا لیکن کس قدر اکیلا تھا
1955 1960ءکے قریب نئی شعری تحریک شرو ع ہوئی ۔ اس دور میں شعر میں ایسی باتیں برتی جانے لگیں جو پہلے موجود نہ تھیں ۔ اس لیے اساس دور کی شاعری مکمل طور پر جدید شاعری ہے جس میں نیا ماحول اور نئی کیفیات ملتی ہیں۔اس ادب پر زیادہ تر اثر صنعتی تہذیب اورمشینی زندگی کا ہے۔ جس کی وجہ سے اس دور کی شاعری میں ان چیزوں سے فرار اور باطن کی طرف سفر کا عمل زیادہ ہے۔اور غزل میں داخل اور خارج کی کشمکش جاری ہے۔ فن اور اسلوب کے حوالے سے اس دور میں بڑی تبدیلی کا احساس ہوتا ہے۔ وہ ہے یہاں کی غزل میں ہماری اپنی مٹی کی خوشبو ہے ۔ تمام استعارے اور لفظیات کا تعلق فطرت اور ہماری مٹی سے ہے۔ مثلا درخت ،پرندے ، سفر ، ہجرت ، گلی ، چاندنی ، دھو پ ، دھواں، منڈیر ، شاخیں ، بادل ، تنہائی ، سایہ جیسےالفاظ ۔
نئی شاعری کے حوالے سے ایک بڑا نام احمد فراز کا ہے ۔ جو 55 اور 60 کے درمیان سامنے آئے ۔ ان کے ہاں کلاسیکی نقطہ نظر کے ساتھ ساتھ نئے دور کے مسائل بھی نظرآتے ہیں۔کہیں فیض کا اثر ہے اور کہیں ترقی پسندی لیکن فراز بنیادی طور ایک رومانی شاعری ہے۔ ان کی غزل کے موضوعات حسن و عشق پر مبنی ہیں۔پہلے کی شاعری میں محبوب بے وفا تھا لیکن فراز کے ہاں کا عاشق بھی بے وفا ہے یعنی اُس کا تصور ِ عشق آگے کی چیز ہے ۔
یہ غزل دین اُس غزال کی ہے
جس میں ہم سے وفا زیادہ تھی
دل منافق تھا شبِ ہجر میں سویا کیسا
اور جب تجھ سے ملا ٹوٹ کے رویا کیسا
فراز کے ہاں مسلسل تصورِ محبت میں بے وفائی کا عمل نظرآئے گا کئی جگہ وہ اقرار کرتا ہے
ہم نے جس جس کوبھی چاہا تیرے ہجراں میں وہ لوگ
آتے جاتے ہوئے موسم تھے زمانہ تو تھا
اُن کے ہاں تصور عشق میں زمانہ کی تلخی اور فرسٹیشن بھی در آئی ہے
اس زندگی میں کتنی فراغت کسے نصیب
اتنا نہ یاد آ کہ تجھے بھول جائیں ہم
آنکھ سے دو ر نہ ہو دل سے اتر جائے گا
وقت کا کیا ہے گزرتا ہے گزر جائے گا
منیر نیازی کی غزل کئی دکھوں سے تعمیر ہوئی اس میں محبت کے دکھ بھی ہیں اور سماجی در د بھی ۔ کہیں کہیں یہ محسوس ہوتا ہے کہ ان کے ہاں سماج کے بہت سے اندرونی دکھ محبت کے دکھ میں مل گئے ہیں۔ اور یہ دونوں دکھ مل کر کوئی اکائی تشکیل دے رہے ہیں۔
اُس آخری نظر میں عجب درد تھا منیر
اس کے جانے کا رنج مجھے عمر بھر رہا
جانتا ہوں ایک ایسے شخص کو میں بھی منیر
غم سے پتھر ہو گیا لیکن کبھی رویا نہیں
صبح کاذب کی ہوا میں درد تھا کتنا منیر
ریل کی سیٹی بجی تو دل لہو سے بھر گیا
منیر کے ہاں دو الفاظ بہت زیادہ ہیں ایک شہر اور ایک سفر ۔ ایسا لگتا ہے کہ منیر کی غزل کی غزل کا مسافر اندھیرے میں کھو گیا ہے ۔ اور شہر کے سارے مناظر اندھیرے میں کھو گئے ہیں ۔ اس لیے اُن کے ہاں سایے اور دھند کی کیفیت ملتی ہے۔ اُن کے ہاں تنہائی اور خوف کی فضاءموجود ہے۔ جو اُس دور کے نئے ماحول کو ظاہر کرتی ہے۔
ملتی نہیں پناہ ہمیں جس زمین پر
اک حشر اس زمین پہ اٹھا دینا چاہیے
میری ساری زندگی کو بے ثمر اُس نے کیا
عمر میر ی تھی مگر اس کو بسر اُس نے کیا
0 comments:
آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔