Sunday, March 18, 2012

مشفق خواجہ(کوائفِ حیات)

4 comments


مشفق خواجہ کا تعلق علمی و ادبی گھرانے سے تھا۔وہ ۱۹دسمبر ۱۹۳۵ء کو لاہور کے ایک کشمیری گھرانے میں پیدا ہوئے ، اْن کا نام خواجہ عبد الحئی رکھا گیا لیکن گلستانِ ادب میں وہ مشفق خواجہ کے نام سے ہی جانے جاتے ہیں۔ ان کے والد خواجہ عبد الوحید علامہ اقبال کے قریبی لوگوں میں سے تھے اور علامہ ان پر بہت زیادہ بھروسہ کرتے تھے۔علامہ اقبال کا بہت سا سیاسی تحریری کام وہی انجام دیا کرتے تھے۔
 خواجہ عبدالوحید باقاعدگی کے ساتھ روزانہ ڈائری لکھتے تھے۔ مشفق خواجہ نے والد مرحوم کی اس ڈائری کو مدون کر کے شایع  کرنے کا کام شروع کیا، مگر مکمل نہیں کر سکے۔ ان کے ایک چچا زاد بھائی کرنل خواجہ عبد الرشید دیال سنگھ لائبریری کے ناظم رہے۔ ان کی اپنی بھی بڑی ذاتی لائبریری تھی۔ مشفق خواجہ کے چچا خواجہ عبد المجید نے اردو کی مشہور لغت ”جامع ا للغات “مرتب کی تھی۔مشفق خواجہ کے ایک چچا زاد بھائی خواجہ خورشید انور نے موسیقی میں ناموری حاصل کی تھی۔ اس طرح ان کے خاندان کا ہر شخص علم و ادب کے حوالے سے اعلیٰ و منفرد  مقام رکھتا تھا۔ نامورمحقق،شاعر اور مزاح نگارمشفق خواجہ نے ہر صنف ادب پر      ا پنی چھاپ چھوڑی ۔ اگر وہ محقق ہیں تو موضوع کو حرفِ آخر تک لے جاتے تھے۔ شاعری انہوں نے کم کی لیکن بڑے ہم عصر شعراء اور ناقدین سے داد حاصل کی اور کالم نگاری میں انہوں نے ایک نئی طرز کی بنیاد ڈال دی۔ جس کی ابتدا بھی انہیں پر ہو تی اور اختتام بھی۔ خامہ بگوش کے نام سے انہوں نے” تکبیر“ میں جو کالم لکھے تھے، انہوں نے ایسی زبردست مقبولیت حاصل کی کہ دوسرے کالم نگار بھی ان کی تقلید کرنے لگے لیکن کسی کو بھی وہ انداز نصیب نہیں ہوا۔  
مشفق خواجہ سات بھائیوں اور تین بہنوں کے ساتھ  لاہور سے کراچی منتقل ہوگئے اور پھر پوری زندگی وہیں گزار دی انہوں نے کراچی یونیورسٹی سے بی اے آنرز اور  ایم اے اردو کیا اور کچھ عرصہ تدریس کا بھی کام انجام دیا۔ ۔ انہیں فوٹو گرافی کا بھی بہت شوق تھا اور ان کے پاس اعلیٰ درجے کے کیمرے تھے۔ ان کے پاس اپنی بہت بڑی لائبریری تھی۔ جن کے ساتھ وہ اپنا سارا وقت گزارتے تھے۔ 
درس و تدریس کے علاوہ ان کا تعلق انجمن ترقی اردو پاکستان سے رہا اور انہیں بابائے اردو مولوی عبدالحق کے ساتھ علمی اور ادبی کام کرنے کا اعزاز حاصل ہوا۔ انہوں نے سہ ماہی اردو ماہنامہ ”قومی زبان“ اور ”قاموس الکتب“ کی ادارت بھی کی۔ ان کی نگرانی میں انجمن ترقی اردو کی کتنی ہی کتابوں کی اشاعت کا کام انجام پذیر ہوا۔ 
تحقیق کے معاملے میں خواجہ صاحب کا کام بے حد اہم ہے۔ سعادت خاں ناصر کی تصنیف ”تذکرہ خوش معرکہ زیبا“کو انہوں نے مفصل مقدمے اور حواشی کے ساتھ مرتب کیا تھا۔ اس کے علاوہ”پرانے شاعر نیا کلام“کے تحت بعض ایسے شعرا پر تحقیقی کام کیا جن پر پہلے کچھ کبھی نہیں لکھا گیا۔ ”ابیات“کے عنوان سے ان کا شعری مجموعہ ۱۹۷۸ء میں شایع ہوا تھا۔ علامہ اقبال پر لکھی گئی احمد دین کی اولین کتاب جو نایاب تھی اسے خواجہ صاحب نے مفصل مقدمے اور حواشی کے ساتھ مرتب کر کے شایع کیا۔ غالب اور صفیر بلگرامی پر کام بھی ان کا ایک اہم کارنامہ ہے، جس میں غالب کے شاگرد کے ساتھ باہمی تعلقات اور مراسلات پیش کی گئی ہے۔
انہوں نے ریڈیو پاکستان کے لیے مختلف موضوعات پر مبنی پانچ سو فیچر لکھے، دو درجن سے زیادہ تحقیقی مقالات بھی لکھے جو کہ برصغیر کے مختلف جرائد میں چھپے۔

 ان کے علاوہ بھی مشفق خواجہ کی کئی اہم تحقیقی کتابیں ہیں جن میں”جائزہ مخطوطات اردو“بہت اہمیت کی حامل ہے، جس میں پاکستان میں موجود مخطوطات اور دنیا بھر میں ان کے دیگر نسخوں کا تذکرہ ہے۔ ان کا ایک بہت اہم کام ”کلیاتِ یگانہ“ کی تدوین ہے جس پر انہوں نے ۲۵سے ۳۰برسوں تک محنت کی تھی۔ اس میں یگانہ کا تمام کلام جمع کیا گیا ہے، خواہ وہ مجموعوں کی شکل میں چھپ چکا تھا، غیر مطبوعہ شکل میں عزیز و اقارب کے پاس موجود تھا یا رسائل میں بکھرا ہوا تھا۔ اس مجموعے کادیباچہ، ضمیمہ، حواشی اور تالیقات انتہائی معلومات افزا اور قابل قدر ہیں۔ کلیات، متن کی اغلاط سے مبرا ہے۔ یہ کلیات تدوین کا کام کرنے والوں کے لیے مثال کی حیثیت رکھتی ہے۔ 
مشفق خواجہ کی ایک اور جہت ان کی مزاح نگاری تھی۔ محققین کے بارے میں یہ تاثر عام ہے کہ وہ بے حد خشک مزاج ہو تے ہیں لیکن خواجہ صاحب محفلوں میں ظریف اور نکتہ سنج شخصیت کی حیثیت سے جانے جاتے تھے۔ ان کی بات میں شگفتگی ہو تی تھی۔ 
محقق ہونے کے ناتے لوگوں کے بارے میں ان کی معلومات حیرت انگیز ہو تی تھیں۔ وہ ہر شخص کی خوبیوں اور خامیوں سے آگاہ تھے۔ اسی لیے جب وہ خامہ بگوش کا کالم لکھنے پر آتے تھے تو بات سے بات پیدا کر دیتے تھے۔ ان کے کالموں کا انتخاب مظفر علی سید نے تین جلدوں میں شایع  کیا تھا۔ یہ کتابیں بے ساختہ مزاح کی اعلیٰ پائے کی تصانیف ہیں اور اس معاملے میں خواجہ صاحب کا کوئی ہم پلہ نظر نہیں آتا۔
اکیس فروری ۲۰۰۵ءکو اس عظیم ادبی اسکالر کا ۷۰ برس کی عمر میں کراچی میں انتقال ہوا۔ تحقیق کے مطابق محیط اسمٰعیل جو کہ مشفق خواجہ کے بہت قریب رہے ہیں ان کا کہنا ہے کہ مشفق خواجہ کا انتقال انیس فروری کو ہو گیا تھا لیکن ڈاکٹروں نے ان کی وفات کی اطلاع اکیس فروری کو دی لہٰذا اسے ہی درست مان لیا گیا۔
اپنی یادوں کو سمیٹیں گے بچھڑنے والے
کسے معلوم ہے پھر کون کدھر جائے گا
یا دیں رہ جائیں گی اور یادیں بھی ایسی جن کا 
زہر آنکھوں سے رگ و پے میں اْتر جائے گا۔  

4 comments:

  • April 2, 2012 at 6:38 AM

    مشفق خواجہ پر خاکسار کا تازہ مضمون یہاں ملاحظہ کیجیے:
    http://www.wadi-e-urdu.com/miscellaneous-articles-of-rashid-ashraf/

  • April 2, 2012 at 6:40 AM

    خواجہ صاحب پر درج بالا مضمون بہار ہندوستان کے کسوٹی جدید میں شائع ہوا اور بعد ازاں اسے لاہور کے جریدے الحمراء کے فروری 2012 کے شمارے میں ڈاکٹر انور سدید نے شائع کروایا

  • April 2, 2012 at 6:45 AM

    آپ کے لکھے کوائف درست ہیں، آپ نے لکھا ہے:
    "۔ ان کے پاس اپنی بہت بڑی لائبریری تھی۔ جن کے ساتھ وہ اپنا سارا وقت گزارتے تھے۔"
    خواجہ صاحب کے انتقال کے بعد ان کے کتب خانے کا کیا ہوا، کتابیں کس حال میں ہیں، اس کی تفصیل کی فراہمی کی ضرورت ایک عرصے سے محسوس کی جارہی تھی کہ کچھ بدگمانیاں بھی اس سلسلے میں جنم لینے لگی تھیں، راقم الحروف نے اپنے طویل مضمون میں تمام تفصیل بیان کی ہے
    میرا ای میل پتہ یہ ہے:
    zest70pk@gmail.com
    www.wadi-e-urdu.com
    یہ خاکسار کی جناب ابن صفی پر غیر تجارتی سائٹ ہے

  • April 2, 2012 at 6:48 AM

    اگر آپ نے مشفق خواجہ صاحب کے کالمز پڑھے ہیں تو راقم کی یہ دو تحاریر بھی ملاحظہ کیجیے گا، ڈاکٹر انور سدید اور عقیل عباس جعفری کے مطابق مشفق خواجہ کے بعد یہ سلسلہ راقم نے شروع کیا ہے:

    http://www.hamariweb.com/articles/article.aspx?id=16493
    اور
    http://www.hamariweb.com/articles/article.aspx?id=20853

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔

آج کا شعر

دلوں میں فرق پڑ جائے تو اتنا یاد رکھنا تم

دلیلیں، منتیں ، سب فلسفے بیکار جاتے ہیں

Powered by Blogger.

آج کا شاعر

Faiz Ahmad Faiz