Wednesday, March 21, 2012

پھر کچھ اک دل کو بیقراری ہے

0 comments

پھر کچھ اک دل کو بیقراری ہے
سینہ جویائےزخمِ کاری ہے

پھِر جگر کھودنے لگا ناخن
آمدِ فصلِ لالہ کاری ہے

قبلۂ مقصدِ نگاہِ نیاز
پھر وہی پردۂ عماری ہے

چشم دلاّلِ جنسِ رسوائی
دل خریدارِ ذوقِ خواری ہے

وُہ ہی صد رنگ نالہ فرسائی
وُہ ہی صد گونہ اشک باری ہے

دل ہواۓ خرامِ ناز سے پھر
محشرستانِ بیقراری ہے

جلوہ پھر عرضِ ناز کرتا ہے
روزِ بازارِ جاں سپاری ہے

پھر اسی بے وفا پہ مرتے ہیں
پھر وہی زندگی ہماری ہے

(مرزا غالب)

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔

آج کا شعر

دلوں میں فرق پڑ جائے تو اتنا یاد رکھنا تم

دلیلیں، منتیں ، سب فلسفے بیکار جاتے ہیں

Powered by Blogger.

آج کا شاعر

Faiz Ahmad Faiz