Tuesday, March 20, 2012

بچھٹر گئے اب منشا یاد

0 comments

تحریر و تحقیق: بنتِ آدم 
منشا یاد  اردو ادب کےمعروف افسانہ نگار تھے جنہوں نے اپنی افسانوں اور کہانیوں میں اپنی روایات کو برقرار رکھا اور پاکستانی ادب کو اور بالخصوص اردو افسانے کو ایک نیا اسلوب دیا۔ انہوں نے پچاس کی دہائی میں افسانہ لکھنے کا آغاز کیا اور اب تک دوسو افسانے تحریر کیے ہیں جو کہ اردو ادب میں گراں قدر اضافہ ہیں۔منشا یاد کو دیہات کا افسانہ نگار بھی کہا جاتا ہے اور اس سلسلے میں وہ پریم چندکے نقشِ قدم پر چلتے ہیں لیکن اْن کے افسانوں میں دیہات کی جو منظر کشی ہے وہ آج کے دور کی نمایندگی کرتی ہے کہ  اکیسوں صدی میں بھی عام آدمی کے مسائل وہی ہیں جو کہ عرصہ پہلے تھے، ذات پات، دین دھرم اور ریت روایات  آج بھی ویسی ہیں کسانوں اور نچلے طبقے کے لوگوں کی زندگیاں آج بھی زمیندار کے رحم و کرم پہ ہیں ان کی حاکمیت آج بھی قائم ہے اور عام آدمی ابھی تک اپنے مسائل میں ہی اٌلجھا ہوا ہے۔ ان کے افسانے اسی سیاسی و سماجی گھٹن کے عکاس ہیں جس میں ہم سب جی رہے ہیں ۔
منشا یاد نے اردو کے علاوہ پنجابی زبان کو ذریعہ اظہار بنایا اور اپنے افسانے کی روایت کو مکمل  ذمہ داری کے ساتھ نبھایا ۔ پنجابی زبان سے انہیں اس لیے بھی لگاؤ زیادہ ہے کہ ان کا خمیر ہی اس مٹی سے اْٹھا ہے ۔ ان کے افسانوں میں جابجا پنجابی شعرا کا کلام بکھرا نظر آتا ہے ۔ منشا یاد نے ہر صنفِ ادب میں طبع آزمائی کی لیکن ان کی وجہ شہرت ان کے افسانے ہی ہیں۔ا منشا یاد  نے ہر صنفِ ادب میں لکھا  اردو افسانے سے ان کی محبت کا یہ عالم تھا کہ اسلام آباد میں اپنے گھر کا نام ” افسانہ منزل“ رکھا۔    نہوں نے یادگار ڈرامے بھی تخلیق کیے جن میں ”بندھن، پورے چاند کی رات، راہیں نے ملک گیر شہرت حاصل کی۔
منشا یاد افسانہ کی عہد ساز شخصیت تھے حال ہی میں اردو کا یہ عظیم افسانہ نگار  ۱۵ اکتوبر ۲۰۱۱ کوشہر فسانہ کو سوْنا کرگیا جس پر بزمِ ادب ہمیشہ سوگوار ہے گی۔  وہ عرصہ دراز سے عارضہ قلب میں مبتلا تھے۔ ڈاکٹر احمد علی برقی اعظمی نے منشا یاد کو خراج پیش کرتے ہوئے کیا خوب لکھا ہے۔۔۔
نہیں رہے اب منشا یاد
رکھتے تھے جو سب کو شاد

اُن کے سبھی افسانے تھے
جبرِ زمانہ کی فریاد

اُن کے سبھی کرداروں میں
تھے کچھ شاد تو کچھ ناشاد

لکھتے تھے رودادِ جہاں
نہیں تھا کوئی بُغض و عناد

صفحۂ  ذہن پہ ہیں وہ ثبت
اُن کے نقوش رہیں گے یاد

سب کو یہاں سے جانا ہے
شیریں ہو یا ہو فرہاد

موت اسی کی ہے برقیؔ
جس کو کرے زمانہ یاد


0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔

آج کا شعر

دلوں میں فرق پڑ جائے تو اتنا یاد رکھنا تم

دلیلیں، منتیں ، سب فلسفے بیکار جاتے ہیں

Powered by Blogger.

آج کا شاعر

Faiz Ahmad Faiz