مجھے جب میرے نگران ڈاکٹر عبدالغفور شاہ قاسم نے مشفق خواجہ کے مکاتیب میں سے تنقیدی نکات الگ کرنے کا کام سونپا تو مجھے لگا کہ یہ بھی کوئی کام ہے جو کرنا چاہیے لیکن کیا کیا جائے سرتابی کی مجال کہاں تھی میری کیوں کہ انہوں نے اپنے تئیں میرے مطابق کام مجھے سونپا اور یہ یقیناً ڈاکٹر صاحب کا ہی ڈر تھا کہ میں نے یہ کام صرف ۸ دن میں مکمل کیا اس کے لیے میں ان کی محبت اور اپنے شاگروں کے ساتھ مخلص ہونے پر جتنی ان کی احسان مند ہوں کم ہو گا کہ اپنے منصب کو جتنی ذمہ داری سے اور محنت سے نبھاتے میں یہ پہلا شخص دیکھا ہے عام استاودں سے مخلتف میرے کام پر میرے سے زیادہ پریشان کہ میں اسے جلد از جلد مکمل کر لوں کیوں کہ وہ میری غفلت سے اچھی طرح واقف ہیں لیکن اس کے باوجود شفقت سے پیش آتے ہیں ۔بہر حال جیسے جیسے میں خواجہ صاحب کے مکاتیب کو پڑھتی گئی ان کی شخصیت اور اسلوب سے متاثر ہوتی گئی اور ان لمحات میں میں نے شدت سے خواہش کی کہ خواجہ صاحب جیسےشخص کو ابھی جینا چاہیے تھا اور یہ جانتے ہوئے بھی کہ میری خواہش بے معنی ہے ان سے ملنے کی خواہش آج بھی میرے دل میں ہے کہ کاش خواجہ صاحب زندہ ہوتے۔ یہ میری پہلی کاوش ہے اور اْمید کرتی ہوں کہ اس کو بہت سی غلطیوں کے باوجود احباب ظرف کے ساتھ قبول کریں گے۔ اس میں جہاں کہیں بھی آپ کو غلطی لگے تو اسے میری خالصتاً میری لاپرواہی
گردانتے ہوئے درگزر کیجئے گا اور خلوص کے ساتھ نشان دہی بھی تاکہ میری اصلاح ہوسکے۔
لالہ رْخ
شاباش لالہ رُخ۔ آپ اور آپ کے استادِ گرامی دونوں مبارک باد کے مستحق ہیں۔ ڈاکٹر غفور شاہ قاسم نہایت شستہ ذوق کے مالک ہیں، چنانچہ انھوں نے آپ کو بھی ایک اچھے کام کی ترغیب دی اور یقینا آپ نے اس کام کو انجام دے کر ادب کی خدمت کی ہے۔
اللہ آپ کے ادبی ذوق کو مزید ترقی دے۔ ڈاکٹر خالد ندیم