Sunday, March 18, 2012

مکاتیبِ مشفق خواجہ بنام ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی میں تنقیدی نکات

2 comments

مکاتیبِ مشفق خواجہ بنام ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی میں تنقیدی نکات:

 برادرم معین الدین عقیل کے ذریعے آپ کی کتاب  کتابیات اقبال ملی۔ اس عنایت کے لیے ممنون ہوں۔ آپ نے یہ نہایت مفید کام انجام دیا ہے۔ سلسلہ اقبالیات  میں یہ کتاب اپنی اہمیت اور افادیت کے لحاظ سے گراں قدر اضافہ ہے۔
(خط نمبر 3مکاتیبِ مْشفق خواجہ بنام ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی،ادارہ مطبْوعاتِ سْلیمانی لاہور2008 ص۔46)

ڈاکٹر وزیرآغا صاحب کے دستخط ضرور ہونے چاہیں اْن کا نام بڑا ہے اور اْس کا اثر بھی زیادہ ہوگا۔
(خط نمبر 4مکاتیبِ مْشفق خواجہ بنام ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی،ادارہ مطبْوعاتِ سْلیمانی لاہور2008 ص۔49)

آپ کی نظر کی وسعت اور گہرائی کا دل پر بے حد اثر ہواہےاور میری معلومات میں بھی اضافہ ہوا ہے،وہ میرا خالص منافع ہے۔
(خط نمبر 12مکاتیبِ مْشفق خواجہ بنام ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی،ادارہ مطبْوعاتِ سْلیمانی لاہور2008، ص۔49)

مولانا مودودی مرحوم و مغفور کی دینی اور علمی حیثیت اْن کی ادبی حیثیت پر اس حد تک غالب آگئی ہے کہ اْن کےادبی پہلو خصوصا ً  اسلوب کی طرف کسی نے توجہ نہیں دی میری رائے میں مولانا نے اردو کو ایک ایسا توانا اسلوب دیا ہے،جو ہر قسم کے مطالب کے ادا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ کیا ہی اچھا ہو، اگر آپ کبھی اِس موضوع پر تفصیل سے لکھیں۔
(خط نمبر 13مکاتیبِ مْشفق خواجہ بنام ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی،ادارہ مطبْوعاتِ سْلیمانی لاہور2008، ص۔59)
آپ نے شاید مجھے پیشہ ور کالم نویس سمجھ  لیا ہے کہ جیسے یہ میرا ذریعہ معاش ہو یا عادت۔۔۔ زندگی کے راستے میں بے شمار مقامات ایسے آتے ہیں جہاں آدمی کچھ دیر رْک کر  گردوپیش کے کے مناظر سے لْطف اندوز ہوتا ہے۔ کالم نگاری کا معاملہ بھی کچھ ایسا ہی ہے۔
کالم نگاری کی وجہ سے  ہفتے میں دو دن میرے ذہن پر بوجھ رہتا تھا اور باقی پانچ دن پڑھنے والوں کے ذہنوں پر۔ خدا  کا شکر ہے کہ اب ہم سب آرام سے ہیں۔
محمد صلاح الدین صحب کی جسارت سے علاحدگی کی وجہ سے جسارت کو  خاصا نقصان پہنچا ہے۔ اس اخبار کی ساری ساکھ اْس اداریہ نویس کی وجہ سے تھی، جسے علیٰحدہ کیا گیا ہے ۔ محمد صلاح الدین اور جسارت لازم و ملزوم تھے۔ یہ افتراق، بلکہ  انشقاق اْن سب  لوگوں کے لیے تکلیف دہ ہے، جو جسارت اور محمد صلاح الدین صاحب دونوں کے خیر خواہ ہیں۔
محمد صلاح الدین صاحب نے جسارت کےلیے جو قربانیاں دی ہیں ، اْن کی کوئی دوسری مثال برصغیر کی صحافت کی تاریخ میں نہیں ملتی۔ کیا یہ شخص اسی سلوک کا مستحق تھا۔
خط نمبر  14  مکاتیبِ مْشفق خواجہ بنام ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی،ادارہ مطبْوعاتِ سْلیمانی لاہور2008، ص61-60))
پروانہ کے کام کی تدوین آسان ہے کہ اس کے صرف دو ہی نسخے ملتے ہیں۔ یہ دونوں میرے پاس ہیں ۔ پروانہ پر جائزہ مخطوطاتِ اردو کا نوٹ ملاحظہ فرمالیجئے، نیز سہ ماہی غالب(شمارہ اوّل،1975) بھی دیکھ لیجئے۔
خط نمبر  16  مکاتیبِ مْشفق خواجہ بنام ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی،ادارہ مطبْوعاتِ سْلیمانی لاہور2008 ،ص63))
اقبالیات میں آپ کا  رپورتاژ پڑھا، بہت معلوماتی ہے۔
خط نمبر  18  مکاتیبِ مْشفق خواجہ بنام ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی،ادارہ مطبْوعاتِ سْلیمانی لاہور2008، ص66))
بعض کتابوں کی اتنی قیمت ہی کافی ہوتی ہے کہ وہ اہل لوگوں کے ہاتھ  پہنچ جائیں ۔ سو یہ قیمت وصْول ہوئی۔
خط نمبر  20  مکاتیبِ مْشفق خواجہ بنام ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی،ادارہ مطبْوعاتِ سْلیمانی لاہور2008، ص67)
)
ڈاک دس روز سے بند ہےپہلے محکمہ ڈاک والوں نے ہڑتال کر رکھی تھی۔ اب پورا شہر ہنگاموں کی زد میں ہے۔ جمعے کے روز سے کرفیو نافذ ہے۔صورتِ حال انتہائی پریشان کْن ہے۔خدا جانے، ان باتوں کا کیا نتیجہ نکلے گا۔ ہم ہندوستان والوں کو ہندو مسلم فسادات کا طعنہ دیتے ہیں اور خود آپس ہی میں خون  خراباکرتےہیں۔
خط نمبر  22 مکاتیبِ مْشفق خواجہ بنام ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی،ادارہ مطبْوعاتِ سْلیمانی لاہور2008 ص۔69))
آپ سے یہ طے ہوا تھا کہ آپ نثر کی کوئی کتاب مرتب فرما کر اشاعت کے لیے مجھے دیں گے۔ مَیں اس دوران میں ایسی کتاب تلاش کرتا رہا، جو آپ کے مزاج اور دلچسپی کے مطابق ہو۔ مولوی عبدالرزاق کان پوری کی کتاب یادِایام  ایک دلچسپ اور مفید کتاب ہے۔ آپ بیتی بھی ہے اور جگ بیتی بھی۔شخصیات کا تذکرہ بھی ہے اور علمی مباحث کا مجموعہ بھی، اس پر ایک مقدمہ اور کہیں کہیں حواشی لکھنے کی ضرورت ہو گی۔
خط نمبر  24 مکاتیبِ مْشفق خواجہ بنام ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی،ادارہ مطبْوعاتِ سْلیمانی لاہور2008، ص۔72))
بہر حال یہ سانحے تو انسانی زندگی کا خاصہ ہیں ۔ زندگی اسی نوعیت کی پریشانیوں کا نام ہے۔
عبدالمغنی صاحب کی کتاب(قرۃ العین حیدر) کا مطا لعہ کر چکا ہوں ۔ یہ کتاب اس لائق نہیں ہے کہ اسے پاکستان میں بھی چھپنا چا ہیے۔ کراچی میں مکتبہ اسلو ب کے سوا کوئی ایسا ناشر نہیں ہے ،جو ادبی کتابیں شائع کرتا ہو ۔ مکتبے کا معاملہ یہ ہے کہ کوئی ایسی کتاب یہاں شائع نہیں جاتی ، جو پہلی مرتبہ ہندوستان میں شائع ہو چکی ہو۔ ایسا کرنا غیر قانونی ہے۔ لاہور کے ناشر دلیر بھی ہیں اور سینہ زور بھی۔
خط نمبر  27مکاتیبِ مْشفق خواجہ بنام ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی،ادارہ مطبْوعاتِ سْلیمانی لاہور2008، ص77-76)
)
ڈاکٹر مظفر عباس کا شاہکار دیکھ کر  حیرت ہوئی ۔ معلوم نہیں لوگ اس قسم کی حرکتیں کیوں کرتے ہیں۔ مَیں اس پر کالم ضرور لکھوں گا۔
مجھ فقیرِ گوشہ نشین کے پاس تواضع کے لیے سوائے وقت کے اور ہے ہی کیا۔
خط نمبر  31  مکاتیبِ مْشفق خواجہ بنام ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی،ادارہ مطبْوعاتِ سْلیمانی لاہور2008، ص82))
ویسے میری یہ خوش قسمتی ہو گی کہ آپ یہاں آئیں اور کرفیو نافذ ہو جائے، تاکہ مَیں زیادہ سے زیادہ  آپ کے ساتھ رہ سکوں اور کوئی رقیب آپ سے مستفید نہ ہو سکے۔
جناب تحسین فرقی صاحب کو اس خط کے ساتھ الگ خط روانہ کر رہا ہوں۔ میرا تجربہ ہے کی لفافے میں آپ دونوں کے نام کے خط ہوں تو لفافہ گْم ہوجاتا ہے، حالانکہ آپ دونوں ایک ہی نیام میں سما جانے والی شمشیر ہائے آبدار ہیں۔
خط نمبر  33 مکاتیبِ مْشفق خواجہ بنام ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی،ادارہ مطبْوعاتِ سْلیمانی لاہور2008، ص۔85))
اگر تحسین فراقی صاحب بھی ساتھ ہوتے تو مزا آجاتا۔ ہم آپ دونوں اپنے ناموں میں وصالی کے جْزو کا اضافہ کر سکتے تھے۔
اس کا بھی بہت شکریہ کہ آپ نے رئیس احمد  جعفری پر مضمون لکھ دیا، بہت اچھا مضمون ہے۔
خط نمبر  34  مکاتیبِ مْشفق خواجہ بنام ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی،ادارہ مطبْوعاتِ سْلیمانی لاہور2008، ص۔86))
جوش کے انٹرویو والی کتاب، بازار میں خفیہ خفیہ فروخت ہو رہی ہے اور مہنگے داموں۔میرے پاس ایک ہی زائد نسخہ تھا، جو میں نے ڈاکٹر وحید قریشی صاحب کو بھیج دیا۔ مَیں تحسین فراقی صاحب کو لکھ رہا ہوں اور آپ سے بھی عرض ہے کہ ڈاکٹر صاحب سے اس مختصر کتاب کا عکس حاصل کر لیجئے۔مرتب کتاب نے انتہائی خبثِ باطن کا ثبوت دیا ہے اسلام اور آنحضرتؐ کے بارے میں ایسی ایسی باتیں لکھی ہیں، جن کا پاکستان میں شائع ہونا انتہائی دیدہ دلیری ہے۔ ہم سلمان رشدی کو بْرا کہتے ہیں ، لیکن یہ شخص تو سلمان رشدی کا بھی باپ نکلا۔ اس کتاب کے خلاف آپ خود لکھیے اور دوسروں کو بھی خصوصاًمحترم نعیم صدیقی صاحب کو  متوجہ کیجئے۔
خط نمبر  35  مکاتیبِ مْشفق خواجہ بنام  ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی،ادارہ مطبْوعاتِ سْلیمانی لاہور2008، ص۔88))
غیر مطبوعہ  تحقیقی مکالوں کا ڈھیر دیکھ کر جی بہت للچایا۔ اگر خْدا نے توفیق دی تو کبھی فوٹو اسٹیٹ مشین کے ساتھ آپ کے درِدولت پر دستک دوں گا اور اپنے پسندیدہ مقالوں کا عکس تیار کر لوں گا،لیکن مَیں جانتا ہوں کہ یہ آرزو بھی اْن آرزوں میں سے ایک ہے جن کی قسمت میں حسرت بننا لکھا ہے۔
منسلکہ خط اور فوٹو اسٹیٹ زاہد منیر عامر صاحب کے لیے ہے۔ فوٹو اسٹیٹ مولانا ظفر علی خاں کے ایک خط(بنام مولوی عبدالحق) کا ہے۔ انتہائی فحش خط ہے۔ اردو میں شاید ہی ایسا خط کبھی لکھا گیا ہو۔ عامر صاحب چونکہ ظفر علی خا ں کے خطوط جمع کر رہے ہیں، اْن کی خواہش پر یہ خط اْنہیں بھیج رہا ہوں۔
خط نمبر 37مکاتیبِ مْشفق خواجہ بنام  ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی،ادارہ مطبْوعاتِ سْلیمانی لاہور2008، ص۔90))

ایک خط لکھا تھا، انسائی کلو پیڈیا آف اسلام کے سلسلے میں، جواب سے محروم ہوں۔ پہلے کبھی ایسا نہیں ہوا تھا ۔ معلوم ہوتا ہے کہ برادرم تحسین فراقی صاحب کا سایہ آپ پر بھی پڑنے لگا ہے ۔ حالانکہ مجھے اْمید تھی کہ وہ آپ کے سائے میں راہِ راست پر آجائیں گے۔
خط نمبر  38مکاتیبِ مْشفق خواجہ بنام  ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی،ادارہ مطبْوعاتِ سْلیمانی لاہور2008، ص۔91))
پروفیسر مشیرالحق، وائس چانسلر سری نگر یونی ورسٹی کی ہلاکت کی خبر آپ نے سْن لی ہو گی۔ بے حد صدمہ ہوا۔ مرحوم نہایت بلند درجہ اسکالر تھے۔ کئی بہت اچھی کتابوں کے مصنف۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ بڑے عمدہ انسان۔ ایسے شخص کا  خود مسلمانوں ، یعنی کشمیری حْریت پسندوں کےہاتھوں ہلاک ہونا ایک افسوس ناک سانحہ ہے۔ گزشتہ سال 'شام ِہمدرد' کے سلسلے میں مرحوم کراچی آئے تھے تو اْن سے ملاقات ہوئی تھی۔ لکھنؤ میں ان کے داماد ڈاکٹر شاہ عبدالسلام ہیں۔ ان سے میرے مراسم ہیں۔یہ بھی اردو کے بہت اچھے محقق ہیں۔
خط نمبر  41  مکاتیبِ مْشفق خواجہ بنام  ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی،ادارہ مطبْوعاتِ سْلیمانی لاہور2008،ص۔94))
زندگی میں آپ نے حمزہ فاروقی کی کتاب پر شذرہ  لکھا ہے، اس سے وہ بہت خوش ہیں۔ کہنے لگے: اگر ہاشمی صاحب کراچی میں ہوتے تو مَیں ان کی دعوت کرتا۔ مَیں نے عرض کیا : کراچی میں مَیں اْن کا نمایندہ ہوں۔ آپ دعوت کیجیے، میں ثواب اْن تک پہنچا دوں گا۔ سو یہ خط اس لیے لکھ رہا ہوں کہ آپ کی نمایندگی کر کے کام و دہن کی آزمایش سے گزر چکا ہوں۔
آزمایش کا لفظ اس لیے استعمال کیا ہے کہ کھانے کے ساتھ اْن کی گفتگو بھی مجھے نگلنی پڑی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ گفتگو ہضم ہوئی نہ کھانا۔ اْس دن سے پیٹ خراب ہے۔ اتنی عمر گزرنے کے بعد معلوم ہوا کہ صحبت خراب ہو تو پیٹ بھی خراب ہو جاتا ہے۔
خط نمبر  42  مکاتیبِ مْشفق خواجہ بنام  ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی،ادارہ مطبْوعاتِ سْلیمانی لاہور2008، ص95-94))
دوسرا خط برادرم فراقی صاحب کے لیے ہے۔ ایک عرصے سے اْن کا کوئی خط نہیں آیا۔ وہ اپنے  نام کے جزوِ آخر کی مناسبت سے دور دور رہنے کی کوشش کرتے ہیں، جبکہ میں چاہتا ہوں کہ وہ 'وصالی' بن جائیں۔
خط نمبر  43  مکاتیبِ مْشفق خواجہ بنام  ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی،ادارہ مطبْوعاتِ سْلیمانی لاہور2008، ص۔95))
رعایت اس لیے ضروری ہےکہ اس گروہ کی کتابوں کی خریداری پر صَرف شدہ  رقم کی نسبت سے گناہ ہوتا ہے۔مَیں کم سے کم گناہ کا خواہاں ہوں۔
خط نمبر  45  مکاتیبِ مْشفق خواجہ بنام  ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی،ادارہ مطبْوعاتِ سْلیمانی لاہور2008، ص۔98))
گرامی نامہ ملا اور کتاب  اقبالیاتی جائزے بھی، ان عنایات کے لیے بے حد ممنون ہوں۔آپ نے بہت اچھا کیا کہ بکھرے ہوئے مضامین کو یک جا کر دیا۔اب ان سے استفادہ کرنا عام اور آسان ہو جائے گا۔ یہ بے حد معلوماتی مضامین ہیں، ان کی کتابی صورت میں یک جائی بے حد ضروری تھی۔
اب تو ہندوستانی ادیب اْسی طرح کثرت سے آرہے ہیں جس طرح ہندوستان سے بْری خبریں آتی ہیں۔ایسے لوگ کم ہوتے ہیں،جن سے مل کر خوشی ہوئی۔اسلوب احمد انصاری صاحب ایسے ہی کم لوگوںمیں سے ہیں۔ اْن سے تین چار ملاقاتیں ہوئیں اور خاصی مفید۔کتابیں ہندوستان سے البتہ ایک سے ایک بہتر آرہی ہیں۔خصوصاََ شمس الرحمٰن فاروقی، وارث علوی اور بعض دوسرے نقادوں کی کئی اچھی اچھی کتابیں آئی ہیں۔فاروقی نے غالبؔ اور میرؔ پر جو کتابیں لکھی ہیں،وہ اگر مل جائیں تو ضرور ملاحظہ کیجیے۔وارث علوی نے تو اکٹھی چار کتابیں شائع کی ہیں۔دو تنقیدی مجموعے ہیں،ایک افسانے پر کتاب ہےاور ایک بیدی پر۔معلوم نہیں، آپ نے وارث علوی کو پڑھا ہے یا نہیں۔اگر نہیں تو ضرور پڑھیے۔اگرچہ یہ شخص،آپ کے نقطہ نظر سے، خاصا'غیر شرعی' نظر آئے گا،لیکن باتیں فکر انگیز کرتا ہے۔
خط نمبر  46مکاتیبِ مْشفق خواجہ بنام  ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی،ادارہ مطبْوعاتِ سْلیمانی لاہور2008، ص99-98))
عبدالقوی دیسنوی صاحب  کا خط آپ کے نام موصول ہوا، یہ منسلک ہے۔ شاعر کے ایڈیٹر افتخار امام صدیقی آج کل کراچی میں ہیں۔ اگر آپ اپنی نئی کتاب اْنہیں تبصرے کے لیے بھیج سکیں تو اچھا ہو۔وہ اس کتاب کو میری میز پر دیکھ کر اْسے حاصل کرنے کے لیے بے قرار ہو گئے۔
آپ چونکہ اقبال کے اِن سائی کلو پیڈیا ہیں، اس لیے مجھے یہ اطمینان رہے گا کہ آپ کی سند حاصل ہے۔
خط نمبر  47مکاتیبِ مْشفق خواجہ بنام  ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی،ادارہ مطبْوعاتِ سْلیمانی لاہور2008، ص101-100))
تحسین فراقی صاحب سے دس بارہ روز قبل فون پر بات ہوئی تھی۔وہ شاید واپسی پر کراچی آئیں۔خدا کرے کہ ایسا ہو۔دیکھنا چاہتا ہوں کہ لیلیٰ مجنوں پر مقالہ لکھنے کے بعد اْن کی کیا حالت ہے۔
محمد صلاح الدین صاحب(تکبیر) کے  ایک عزیز میرٹھ سے آئے ہیں،یہ حفیظ جالندھری پر پی ایچ ڈی کر رہے ہیں۔ منصورہ میں ہی ٹھہر یں گے۔اْن کی جو مدد ہو سکے ، اْس سے دریغ نہ فرمائیے گا۔ یہ خوشی کی بات ہے کہ حفیظ کو ہندوستان میں پوچھا جا رہا ہے۔
اِدھر ایک اچھی کتاب شائع ہو ئی ہے  خطباتِ رشید احمد صدیقی۔ ضخیم بھی ہے اور خاصی مہنگی بھی۔اس کا دیباچہ جو لطیف الزماں خاں نے لکھا ہے، نہایت واہیات ہے۔ اس میں سید معین الرحمٰن، آل احمد سرور، اسلوب احمد انصاری اور ابنِ فرید کے بارے میں نہایت واہیات انداز سے لکھا گیا ہے۔
خط نمبر  48مکاتیبِ مْشفق خواجہ بنام  ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی،ادارہ مطبْوعاتِ سْلیمانی لاہور2008، ص103-102))
اب کے توآپ نے خط کے  جواب میں تاخیر کا عالمی ریکارڈ قائم کر دیا ۔
خط نمبر  49مکاتیبِ مْشفق خواجہ بنام  ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی،ادارہ مطبْوعاتِ سْلیمانی لاہور 2008 ،ص103،))
بے حد ممنون ہوں کہ آپ نے مجھے سفر کے دوران بھی یاد رکھا اور واپس آکر بھی،ورنہ اکرام چغتائی تو حسینانِ یورپ میں ایسے کھو جاتے ہیں کہ دورانِ سفر دوستوں کو اور واپس آکر اپنے آپ کو بھول جاتے ہیں۔
لوگ بے مقصد سفر کرتے ہیں اور سفر نامے کے نام پرطومار نویسی اور خرافات نگاری کرتے ہیں،آپ کا سفر تو بامقصد بھی تھا اور نتیجہ خیز بھی۔مجھے زیادو دلچسپی اس سے ہے کہ پیرس میں آپ کا کیا حال ہوا۔کاش مَیں وہاں آپ کے ساتھ ہوتا اور دیکھتا کہ آپ نگاہوں سے کس طرح کام لے رہے ہیں۔
اس کا افسوس ہوا کہ بیشتر دوستوں کو دہلی کا ویزہ نہیں ملا۔ دراصل غلطی دوستوں ہی کی ہے۔ ویزا  کی درخواست میں سیمی نار کا ذکر ہی نہیں کرنا چاہیے تھا۔ حیدر آباد سندھ سے بھی اسی وجہ سے کوئی نہیں جا سکا۔ کراچی سے طاہر مسعود، مسعود احمد برکاتی اور  شجاع احمد زیبا دہلی گئے ہیں۔
خط نمبر  50مکاتیبِ مْشفق خواجہ بنام  ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی،ادارہ مطبْوعاتِ سْلیمانی لاہور2008، ص۔105))
17 جون کا گرامی نامہ آج 24 جون کو ملا۔ تاخیر کا سبب کرفیو ہے، جو میرے علاقی میں نافذ ہے۔ گزشتہ چھ سات برسوں سے کراچی کی قسمت میں یہی کچھ لکھا ہے۔
ویزے کے سلسلے میں آپ ہرگز یہ ظاہر نہ کیجیے گا کہ سیے می نار میں شرکت کے لیے جا رہے ہیں۔ذاتی وجوہ بیان کیجیے گا۔ ہندوستانی سفارت خانہ سے می نار وغیرہ میں شرکت کے لیے ویزہ جاری نہیں کرتا۔۔۔ بابائے اردو سے می نار میں جو لوگ انجمن اور ہمدرد لی طرف سے گئے تھے، انھوں نے ذاتی وجوہ کی بنا پر ویزے لیے تھے۔جنھوں نے ایسا نہیں کیا تھا، وہ نہیں جا سکے تھے۔
خط نمبر  51مکاتیبِ مْشفق خواجہ بنام  ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی،ادارہ مطبْوعاتِ سْلیمانی لاہور ،2008، ص ۔107))
اب تو آپ لوگوں کے دہلی جانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ 28 نومبر کو ڈاکٹر گیان چند کو یہاں آنا تھا(بابائے اردو یادگاری لیکچر کے لیے) ، انھیں بھی ویزا نہیں ملا۔
خط نمبر 52مکاتیبِ مْشفق خواجہ بنام  ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی،ادارہ مطبْوعاتِ سْلیمانی لاہور2008 ص۔109))
آپ کے دولت خانے پر ظفر حجازی صاحب سے ملاقات رہی۔اْن سے مل کر خوشی ہوئی۔ اْن کا نورانی چہرہ اب تک آنکھوں میں ہے۔دائرہ معارف کی آخری جلد عنایت کر کے اْنھوں مجھے اور آپ کو، دونوں کو بھاگ دوڑ سے بچا لیا۔

آپ نے غرناطہ کا جو خوبصورت یادگاری ایش ٹرے دیا تھا، وہ میں نے ایسی جگہ رکھا ہے کہ ہر وقت نظر پڑتی رہے۔ اسے بطور ایش ٹرے استعمال کرنے کا ہرگز ارادہ نہیں ہے۔ اس کا حْسن مجروح ہو جائے گا۔ایسی خوبصورت چیز سے یہ سلوک بدذوقی کا ثبوت ہوگا۔
خط نمبر54مکاتیبِ مْشفق خواجہ بنام  ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی،ادارہ مطبْوعاتِ سْلیمانی لاہور2008 ص ۔112))
آپ کا عنایت کردو ایش ٹرے ہر وقت نظروں کے سامنے رہتا ہے اور یہ یاد دلاتا رہتا ہے کہ آپ نے مجھے سر زمینِ اندلس میں بھی یاد رکھا تھا۔

خط نمبر55،مکاتیبِ مْشفق خواجہ بنام  ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی،ادارہ مطبْوعاتِ سْلیمانی لاہور،2008 ص ۔113))
کل کی ڈاک سے تحسین فراقی صاحب کی کتاب  نقد اقبال ملی۔ یہ ایک اچھا کام ہو گیا۔
کسی نے بتایا کہ چند روز ہوئے، فراقی صاحب ٹیلی ویژن پر بھی دکھائی دیے تھے۔ کیا اب وہ ٹی وی کے ڈراموں  وغیرہ میں حصّہ لینے لگے ہیں؟ ملاقات ہو تو مبارک باد پیش کر دیجیے گا۔

خط نمبر56مکاتیبِ مْشفق خواجہ بنام  ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی،ادارہ مطبْوعاتِ سْلیمانی لاہور2008،ص ۔115))
اقبالیات کے تین سال ملی، ارمغانِ علمی کے رائیٹنگ پیڈ ملے۔ ان عنایات لے لیے سراپا سپاس ہوں۔ آپ کی کتاب کے با رے میں کیا لکھوں کہ آپ کی سابقہ کتابوں کی طرح، یہ آپ کی تلاش و تحقیق اور دیدودریافت کا عمدہ نمونہ ہے۔ اس سے کتنی ہی نئی باتیں معلوم ہوئی ہیں۔
برادر عزیز تحسین فراقی صاحب کہاں ہیں؟ بہت دنوں سے اْن کا خط نہیں آیا۔وہ میری بْری عادتوں میں شامل ہیں ۔ بْری عادتیں، آپ جانتے ہیں کہ ہر شخص کو عزیز ہوتی ہیں۔ اْن کا خط نہ آئے تو ہر شے میں کسی شے کی کمی محسوس ہوتی ہے۔
آج کل ہندوستان سے بہت سی اچھی کتابیں لگاتار آرہی ہیں۔ جی چاہتا ہے کہ یہ کتابیں آپ کی نظر سے بھی گزریں۔کچھ کتابیں مکرّر بھی آگئی ہیں ۔ یہ آپ کی اور تحسین صاحب کی امانت ہیں۔جلد ہی اْن کی فہرست بھیجوں گا۔ جو آپ کی پسند کی ہوں گی ، ارسال کر دوں گا۔
خط نمبر57مکاتیبِ مْشفق خواجہ بنام  ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی،ادارہ مطبْوعاتِ سْلیمانی لاہور2008 ص ۔115))
چغتائی صاحب نے قیام تو میرے ہاں کیا تھا، لیکن زیادہ تر وہ اپنے کاموں سے باہر ہی رہے۔ میرے ساتھ رات کو طویل نشستیں رہتی تھیں۔ بہت دلچسپ اور مزے مزے کی باتیں اْن سے سنیں۔ خوشی ہوئی کہ یورپ جا کر وہ صرف علمی کام ہی نہیں کرتے، غیر علمی تانک جھانک میں بھی خاصا وقت صرف کرتے ہیں۔
ارمغانِ علمی کے سلسلے میں ایک اَور مقالہ حاصل کر لیا ہے، حمید نسیم صاحب نے شاد عظیم آبادی پرلکھا ہے ۔ حمید نسیم صاحب کی تحریر (املا) تقریباَ نا خوانا ہے۔ ہاتھ میں رعشہ ہے۔

معین الدین عقیل صاحب کا جاپان سے خط آیا ہے۔ وہاں وہ بہت خوش ہیں۔ آپ کو بھی اْنہوں نے لکھا ہوگا۔
کراچی میں آج کل شدید گرمی ہے، اْس پر بجلی کی آنکھ مچولی۔ اس سے کام کا بہت نقصان ہو ریا ہے۔ اکثر دوپہر کا سونا اور رات کو دیر تک کام کرنا معطل ہو جاتا ہے۔
                                                                                                                                   
خط نمبر58مکاتیبِ مْشفق خواجہ بنام  ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی،ادارہ مطبْوعاتِ سْلیمانی لاہور2008 ص۔117 ))
اودھ پنچ کے متفرق شمارے دیکھنے کے لیے ایک لائبریری سے منگوائے تھے۔ان میں دو جگہ علامہ اقبال کا مختصر حوالہ نظر آیا۔۔۔ طنزیہ انداز میں۔ مَیں نے آپ کے لیے عکس بنوالیے، بھیج رہا ہوں۔
آپ سے میں نے رئیس احمد جعفری کی اقبال شناسی پر جو مقالہ لکھوایا تھا، وہ تو 1989 میں ہی یادگاری مجّلے میں شائع ہوگیا تھا۔ مجھے اچھی طرح یاد ہےکہ یہ آپ کو بھیجا گیا تھا۔یقیناَ ڈاک کی بد انتظامی کی نذر ہو گیا ۔ یہ مجّلہ اس اعتبار سے بھی اہم ہے کہ اس میں آپ کے دو مضمون ہیں۔ ایک تو اقبال شناسی کے حوالے سے اور دوسرا  دیدو شنید پر تبصرہ ہے۔
خط نمبر59مکاتیبِ مْشفق خواجہ بنام  ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی،ادارہ مطبْوعاتِ سْلیمانی لاہور2008، ص119-118))

ارمغانِ علمی کے لیے 9 مقالے بھیج رہا ہوں۔ یہ مقالے ایک غلط فائل میں رکھ دئیے تھے، آج کسی کام سے اس فائل کو نکالا تو یہ گم شدہ بلکہ فراموش شدہ دولت ہاتھ آئی۔ ارمغانِ میں جتنے اہلِ قلم کے مضامین ہیں، اْن سب کے سوانحی کوائف بھی آخر میں شامل ہونے چاہییں۔ آپ کو جن مقالہ نگاروں کے حالات دستیاب نہ ہوں، مجھے لکھیے۔ مَیں فراہم کر دوں گا۔ یہ کام زاہد منیر صاحب سے بھی لیا جاسکتا ہے۔ مفتی محمد رضا فرنگی محلی کے مقالے میں ایک جگہ تصحیح کی ضرورت ہے۔ ڈاکٹر نیر مسعود کے مقالے کے پہلے صفحے پر میں نے اس سلسلے میں یادداشت لکھ دی ہے۔  ارمغان کے دو مقالہ نگاروں کا پہلے ہی انتقال ہو چکا ہے۔ مفتی محمد رضا فرنگی محلی اور ڈاکٹر سہیل بخاری۔ تیسرے شانتی رنجن بھٹاچاریہ بھی 15 ستمبر کو چل بسے۔ تینوں سے میرے بڑے گہرے مراسم تھے۔ بھٹا چاریہ تو میرے محسن تھے۔میرے کام کی کتابیں ڈھونڈ ڈھونڈ کر حاصل کرتے تھےاور بھیجتے تھے۔ میری فرمایش پر بھی کرم فرماتے تھے۔انتقال سے صرف گیارہ روز پہلے میرے لیے ایشیا ٹک سوسائٹی کے ایک مخطوطے کا عکس بھیجا تھا۔ تین سو سے زاید صفحات تھے۔
یہ عجب اتفاق ہےکہ بھٹا چاریہ نے چند ماہ پہلے میری فرمایش پر اپنے حالات زندگی بھی لکھ بھیجے تھے۔
ابھی یہ خط لکھنے کے دوران ڈاکٹروحید قریشی صاحب کا فون آیا۔ بتا رہے تھے کہ اقبال اکیڈمی کی گورننگ باڈی کا اصرار ہے کہ وہ اکیڈیمی کو سنبھال لیں۔ مَیں نے مشورہ دیا ہے کہ یہ بات مان لیں ۔ ڈاکٹرصاحب کے انکار کا نتیجہ یہ ہو گا کہ پھر کوئی شہرت بخاری اکیڈیمی کی شہرت خراب کرنے آجائے گا۔
خط نمبر60مکاتیبِ مْشفق خواجہ بنام  ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی،ادارہ مطبْوعاتِ سْلیمانی لاہور2008،ص۔121-120))
سہاوری صاحب نے بڑا کرم کیا کہ اپنی آپ بیتی کے ساتھ دو اور کتابیں بھی بھیج دیں۔آپ بیتی چونکہ میں نے قیمتاًطلب کی تھی،اس لیے اسکی قیمت کا چیک اْنھیں بھیج دیا، جو ازرہِ کرم اْنھوں نے قبول کر لیا، مگر دبستان ہزارہ اب تک نہیں ملی۔ مجھے اْس کی قیمت معلوم نہیں ہے،ورنہ پیشگی چیک بھیج دیتا۔ اگر آپ نے تحفتاًبھیجوائی تو مجھے خوشی نہیں ہو گی۔ اگر کوئی از خود کتاب بھیجوا دے تو دوسری بات ہے، ورنہ ضرورت کی کتابیں مَیں خرید کر ہی خوش  ہوتا ہوں۔
خط نمبر59مکاتیبِ مْشفق خواجہ بنام  ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی،ادارہ مطبْوعاتِ سْلیمانی لاہور2008، ص۔119))
ارمغان میں ڈاکٹرصاحب کی کتابیات بھی شامل کر لینی چاہیے۔چند سال پہلے جو  کتابیات وحید چھپی تھی، اْسے ڈاکٹر صاحب ہی سے اَپ ٹو ڈیٹ کرا لیجیے۔
دبستان ہزارہ تو اب ملتی ہے نہ جب ملتی ہے، آخر کب تک انتظار کرنا ہوگا۔ اب تو اس قسم کی ایک کتاب اٹک کے بارے میں بھی چھپ گئی ہے۔ دبستان کے مصنف سے کہیے کہ اب وہ بطور ہرجانہ اٹک والی کتاب بھی میرے لیے حاصل کریں اور دونوں کتابیں قیمتاً مر حمت فرمائیں۔ اپنے مطلب کی کتابیں خرید کر ہی پڑھنے میں مزہ آتا ہے۔
خط نمبر60مکاتیبِ مْشفق خواجہ بنام  ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی،ادارہ مطبْوعاتِ سْلیمانی لاہور2008، ص122-121))
بہاول پور میں آپ سے اور ڈاکٹر فراقی صاحب سے ملاقات نعمتِ غیر مترقبہ تھی۔
ڈاکٹر ممتاز احمد خاں کراچی کے کسی کالج میں لیکچرار ہیں، فکشن اْن کا  موضوع ہے اور اْسی پر پی ایچ ڈی کی ہے۔آپ انہیں قومی زبان کی معرفت خط لکھیے۔اْن کے گھر کا پتا معلوم نہیں ۔ کبھی کبھار اْن سے ملاقات ہوتی رہتی ہے۔ اچھے آدمی ہیں۔
برنی صاحب کا خط دلچسپ ہے۔وہ آپ کے جواب سے خاصے بدمزہ ہوئے ہوں گے ۔
آپ بنگلہ دیش ضرور جائیں، بہت اچھا تجربہ ہوگا۔ مَیں تو ذہنی طور پر آج تک مشرقی پاکستان کی علاحدگی کو قبول نہیں کر سکا۔ یہ دراصل ہمارے گناہوں کا نتیجہ ہے کہ بنگالی ہم سے الگ ہوگئے، ورنہ وہ تو ہم سے بہتر مسلمان ہیں۔ آج بھی بنگال میں اسلام سے مخلص مسلمانوں کی تعداد ہم سے زیادہ ہے۔
دبستان ہزارہ مل گئی ہے۔ پروفیسر ایوب صابر صاحب کو شکریے کا خط بھیج دیا ہے۔ ساتھ ہی کتاب کی قیمت بھی بصورت چیک پیش کر دی ہے۔ اْن کا یہی احسان بہت ہے کہ اْنھوں نے کتاب بھیج دی ، تحفتاً کتابیں حاصل کرنا اچھا نہیں لگتا۔ اگر کوئی خود کتاب بھیج دے تو دوسری بات ہے۔فرمایش کی قیمت ادا کرنا ضروری ہے۔
آپ کے پچھلے خط میں ارمغان  کے بارے میں کچھ باتیں لکھی تھیں ۔ املا کے سلسلے میں چند موٹی موٹی باتیں الگ کاغذ پر لکھ کر منسلک کر رہا ہوں۔ رشید حسن وغیرہ کی سفارشات پر کاملاً عمل کرنا نا ممکن ہے ۔ نارنگ صاحب نے تو اردو املا کے پہلے ایڈیشن میں جو سفارشات پیش کی تھیں، دوسرے ایڈیشن میں اْن میں سے اکثر واپس لے لیں۔
آٹھ دس روز ہوئے تحسین صاحب کو خط لکھا تھا۔ وہ جواب دینے میں خاصے بحرالکاہل ہیں۔ اس بحر میں کبھی کبھار ہی کوئی موج اْٹھتی ہے۔
خط نمبر60مکاتیبِ مْشفق خواجہ بنام  ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی،ادارہ مطبْوعاتِ سْلیمانی لاہور2008، ص125،123))
لاہور میں آپ نے ازراہِ کرم میرے ساتھ اپنا قیمتی وقت صرف کیا۔اس کا شکریہ اس لیے ادا نہیں کروں گا کہ میں تو لاہور جاتا ہی آپ جیسے چند مخلصین کی خاطر ہوں۔ ڈاکٹر وحید قریشی، آپ اور تحسین صاحب  کے بغیر تو میں لاہور کا تصور ہی نہیں کر سکتا۔ اور اب اس فہرست میں جعفر بلو چ صاحب بھی شامل ہیں۔
آپ کے سفرنامے کے باقی باب مکمل ہوئے یا نہیں ؟ مجھے تو اس کے پڑھنے میں بہت لطف  آیا۔ آج کل جو سفرنامے لکھے جاتے ہیں ،اْن میں جھوٹ کی اتنی آمیزش ہوتی ہے کہ پڑھنے کو جی نہیں چاہتا۔ دو سال پہلے ایک صاحب نے ہندوستان کا سفر نامہ لکھا تھا(قمر علی عباسی نام ہے ان کا)۔ اس میں انھوں نے بتایا ہے کہ شاعر ناصر زیدی ان کے ساتھ تھے۔ اْن سے متعلق بہت سے واقعات درج کیے ہیں، مگر یہ صاحب ساتھ نہیں گئے تھے۔ ان سے منسوب ساری باتیں فرضی ہیں۔ اس کے بر عکس بیگم اور بچے ساتھ گئے تھے،اْن کا سفر نامے میں ذکر ہی نہیں ہے(شاید اْن سے سچے واقعات 'منسوب 'کرتے ہوئے ڈرتے ہوں گے)۔ ایسے عالم میں آپ کے سفرنامے نے اس لیے لطف دیا کہ مجھے یقین تھا کہ اس کا ایک ایک لفظ سچا ہے۔ آپ کا اندازِ بیاں بھی دل آویز ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ اس کے باقی باب بھی چھپنے سے پہلے پڑھ لوں۔
ڈاکٹر جمیل جالبی صاحب اپنی والدہ محترمہ کی بیماری کی وجہ سے کراچی میں ہیں،اْنھوں نے بتایا کہ وہ 18 دسمبر کو مقتدرہ کا چارج چھوڑ چکے ہیں۔ دیکھیے اْن کی جگہ کون آتا ہے۔ ویسے میرا دل کہتا ہے کہ اس جگہ ڈاکٹرجمیل جالبی کادوبارہ تقرر ہوگا اور ہونا بھی چاہیے کہ اْنھوں نے بہت اچھے اچھے کام کیے ہیں۔

خط نمبر62مکاتیبِ مْشفق خواجہ بنام  ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی،ادارہ مطبْوعاتِ سْلیمانی لاہور2008، ص127-126))
اورنگ زیب عالم گیر صاحب کا خط آیا ہے کہ 20 فروری کو یونیورسٹی  جوائن کر رہے ہیں۔ یہ آپ کے شعبے میں انشاءاللہ عمدہ اضافہ ثابت ہوں گے۔
جلیل قدوائی صاحب لاہورسے جہلم جا چکے ہیں۔ گزشتہ جمعہ کو اْن کا فون آیا تھا۔ بینائی کی کمی اور تنہائی زیادتی کی وجہ سےپریشان ہیں۔ اچھا ہوا ،آپ اْن سے مل لیے۔ آپ لوگوں کے ساتھ اْن کی جو تصاویر اْتاری تھیں، معلوم نہیں، کس طرح ضائع ہو گئیں۔ فلم میں ان تصویروں کی جگہ خالی ہے۔ایسا پہلے کبھی نہیں ہوا۔ شاید میرے کیمرے میں کوئی خرابی ہو گئی ہے۔ بہت افسوس ہوا کہ یہ یادگار تصویریں تھیں۔
خط نمبر63مکاتیبِ مْشفق خواجہ بنام  ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی،ادارہ مطبْوعاتِ سْلیمانی لاہور2008،ص۔128))

خامہ بگوشیاں کرنے کا قطعاًارادہ نہیں تھا، مگر صلاح الدین صاحب کا اصرار اور مسلسل اصرار میرے ارادے پر حاوی رہا۔ساڑھے تین برس تک مَیں کوئی نہ کوئی عذر اس خیال سے پیش کرتا رہا کہ باالآخر وہ بھول جائیں گے کہ خامہ بگوش کا کالم اْن کے ہاں چھپتا تھا، مگر جب بھی وہ کسی غیر ملکی دورے سے واپس آتے تو تقاضا پہلے سے زیادہ شدید ہوتا۔تکبیر کے قاری ہر جگہ اْنہیں یاد دلاتے کہ یہ کالم دوبارہ  جاری ہونا چاہیے۔ آخر وہی ہوا جو ہونا تھا۔ کالم شروع تو کر دیا ہے، مگر ابھی طبیعت ادھر نہیں آئی۔اس کا میرے معمولات پر خاصا اثر ہوا ہے۔میں اْن لوگوں میں سے نہیں ہوں ، جو قلم برداشتہ لکھتے ہیں۔کم از کم دو مرتبہ پورا مسودہ ضرور لکھتا ہوں اور پھر آخری وقت تک کانٹ چھانٹ کرتا ہوں۔ میرے حق میں دْعا کیجیے کہ یہ مشکل آسان ہو۔
جہلم میں جلیل قدوائی صاحب سے ملاقات کی۔وہاں وہ اپنے بیٹے بریگیڈیر خالد قدوائی کے پاس مقیم ہیں۔ وہاں آرام وآسایش کراچی کی نسبت بہت زیادہ ہے، مگر 'ادبی' تنہائی سے پریشان ہیں۔
حمید نسیم صاحب کی کتاب، اقبال پر لکھی گئی کتابوں سے بہت مختلف ہے۔ حکیم الاْمت کے وہ قائل نہیں، شاعر اقبال کو وہ مانتے ہیں۔ اس کتاب پر اگر آپ کہیں تبصرہ کر دیں تو بہت اچھا ہو۔
رسالہ تنویر کا اقبال نمبر بصورت عکس آپ کو مل گیا ، اچھا ہوا۔ اس کی بس تاریخی اہمیت ہے، کوئی خاص بات نہیں۔
اْمید ہے اورنگ زیب صاحب نئے ماحول سے مانوس ہو گئے ہوں گے۔ دوسری جگہ پر زاہد منیر عامر آجائیں تو بہت اچھا ہو۔اس نوجوان کا مستقبل روشن نظر آتا ہے۔
مگر سب سے اہم مولانا نصراللہ خاں کی سرگزشت کی تدوین ہے۔اسے آپ جس قدر جلد کر سکیں اچھا ہے۔
یہ جان کر خوشی ہوئی کہ تحسین فراقی صاحب یو نی ورسٹی سینٹ کا انتخاب لڑ رہے ہیں۔ خدا کرے کہ ملکی سینٹ کا انتخاب بھی لڑیں۔
یہاں سے ایک  نا معقول  کتاب خطوطِ جوش چھپی ہے ۔ اس کے نمونے کے چند صفحے بھیج رہا ہوں۔ یہ بھی تحسین صاحب کے لیے ہیں، تاکہ اْنہیں معلوم ہو کہ اردو میں کیا کیا  کچھ چھپ رہا ہے۔
خط نمبر64مکاتیبِ مْشفق خواجہ بنام  ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی،ادارہ مطبْوعاتِ سْلیمانی لاہور2008 ،ص132-129،))
کراچی میں زمینی بلائیں ہی کیا کم تھیں کہ اب تین جولائی سے آفاتِ سماوی نے بھی ادھر کا رْخ کر رکھا ہے۔ایسی بارشیں پہلے کبھی نہیں ہوئیں۔ زندگی کے تمام معلومات میں بے ترتیبی آگئی ہے، اور اس پر یہ دھڑکا لگا رہتا ہے کہ خدا جانے کیا ہو؟ جس مکان میں کتابوں کے سوا اور کچھ نہ ہو، اس کے لیے مسلسل بارشیں بے حد ضرر رساں ہیں۔ خدا کا شکر ہے کہ اب تک سب کچھ محفوظ رہا ہے۔
آپ کی مصروفیات کا حال معلوم ہوا ۔آدمی کو زندہ رہنے کے لیے سب کچھ کرنا پڑتا ہے اور کرنا چاہیے۔ آپ جو نصابی کام کر رہے ہیں، لازمًاس کا مالی فائدہ ہوگا۔ایسا کیوں چھوڑا جائے، جبکہ آج کل کے حالات میں جائز آمدنی کے اندر زندگی بسر کرنا مشکل ہی نہیں، ناممکن ہے۔کالم نگاری سے میں بےزار ہوں۔جس روز کالم لکھنا ہوتا ہے ، میری جان عذاب میں ہوتی ہے، مگر اس کا معقول معاوضہ ملتا ہے،اس لیے سب کام چھوڑ کر یہ کام کرتا ہوں۔
یہ جان کر خوشی ہوئی کہ تحسین فراقی صاحب کو نقوش ایوارڈ ملا ہے۔آج ہی اْنہیں مبارک باد کا خط لکھ رہا ہوں۔
سویا مانے آج چند گھنٹوں کے لیے کراچی میں تھے۔ وہ کسی دفتری کام سے سنگاپور جا رہے ہیں۔ اْن کا  فون آیا، وہ ملنا چاہتے تھے، مگر میرے علاقے میں کل سے گولیاں چل رہی ہیں۔ متعدد افراد زخمی اور ہلاک ہو چکے ہیں۔لہٰذا میں نے اْنہیں آنے سے منع کردیا،اب وہ واپسی پر کراچی آئیں گے تو ملاقات ہو گی۔سویا مانے کا مقالہ بہت اچھا ہے۔میں نے اْن سے کہا کہ یہ اب چھپ جانا چاہئے۔اْنھوں نے بتایا کہ زاہد منیر عامر صاحب اس پر نظر ثانی کریں گے، اس کے بعد یہ چھپے گا۔ غلام عباس پر یہ مقالہ شائع ہوگاتو بہت سی نئی چیزیں سامنے آئیں گی۔
ادیب سہیل صاحب بیچارے کتاب کے تبصرے میں جو کچھ لکھ گئے ، اس سے اْنہیں معذور سمجھے، کیونکہ وہ ان امور سے کچھ زیادہ واقف نہیں ہیں۔
تاجور پر اگر کوئی مقالہ نہیں لکھا گیا تو بات ختم ہو جاتی ہے۔ خدا کرے ساحل صاحب اس موضوع کا حق ادا کردیں۔ تاجور نےاردو کی بڑی خدمت کی ہے۔ اْن کے مضامین کی اشاعت بہت ضروری ہے۔
ڈاکٹر عبدالحق کا دہلی سے خط مجھے بھی آیا ہے۔ اْنہوں نے مجھے نظام خطبات کے سلسلے میں مدعو کیا ہے۔ میرے بارے میں اْنہیں کچھ غلط فہمی ہے،ورنہ میں ان کاموں کا اہل نہیں ہوں۔ معذرت کا خط لکھ دیاہے۔
افتخار امام کے بارے میں مَیں نے جو کچھ کالم میں لکھا ہے، وہ محض تفننِّ طبع کے لیے ہے۔
تحسین صاحب کو رشید حسن خان صاحب نے جائزہ  کلیاتِ مکاتیب اقبال کے تبصرے پر مبارک باد دی۔ یہ بڑی بات ہے۔ خان صاحب جیسے سخت گیر آدمی کسی کو ذرا کم ہی مبارک باد دیتےہیں۔ویسے اس جائزے کی اشاعت سے وہ بہت خوش ہوئے ہوں گے،کیو نکہ آج کل نثار احمد فاروقی سے تعلقات کچھ کشیدہ ہیں۔ فاروقی صاحب نے  فسانہ عجائب پر ایک سخت مضمون لکھا ہے۔ بےشمار غلطیوں کی نشان دہی کی ہے۔ رشید حسن خان صاحب نے اس کے جواب میں جو مقالہ لکھا ہے،وہ بھی بہت عالمانہ ہے،سارے اعتراضات رد کر دیے ہیں۔ یہ دونوں مقالے آج کل میں چھپے ہیں۔غالب کے تنِ مردہ میں بھی جان ڈالنے کی کوشش ہو رہی ہے۔ تخلیقی ادب کا بچا کھچا 'مال' ان کو دے دیا ہے۔
خط نمبر65مکاتیبِ مْشفق خواجہ بنام  ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی،ادارہ مطبْوعاتِ سْلیمانی لاہور2008 ،ص135-134))
اب کے میرا بہاول پور جانے کا کوئی ارادہ نہیں۔ اگرچہ وہاں کی سینٹرل لائبریری میں گزشتہ صدی کے بعض اخبارات (اودھ اخبار) وغیرہ سے استفادہ کرنا ہے۔اب اگلے سال میں پروگرام بناؤں گا۔ ویسے بھی مجھے بہاول پور بہت پسند آیا۔کاش کہ کوئی صورت ایسی ہوتی کہ میں اپنے کتب خانے سمیت وہاں 'آباد' ہو سکتا۔ کراچی کی زندگی نہایت تکلیف دہ ہو گئی ہے۔ اپنے کتب خانے کی طرف سے سخت پریشان ہوں کہ کس کے گھر جائے کا سیلاب بلا میرے بعد۔
سویامانے کا مقالہ بہت اچھا ہے۔مواد کے اعتبار سے زبان و بیان کی غلطیاں دور ہو جائیں تو اس کا چھپنا بہت ضروری ہے۔ زاہد منیر عامر صاحب سے کہیے کہ وہ اس کام کو اردو کی خدمت سمجھ کر انجام دیں۔
آج کل مَیں یگانہ کے سلسلے میں قیام پاکستان سے پہلے کے ادبی جرائد دیکھ رہا ہوں ۔ بہت بڑا ذخیرہ تو میرے خود میرے کتب خانے میں ہے۔
میرے پاس ایک کتاب تحفہ امانیہ ہے، جو نجف علی خان اتالیق امیر امان اللہ خان کی تصنیف ہے۔یہ صاحب ایک زمانے میں کابل جیل میں نظر  بند تھے۔قید کے دوران اْنہوں نے مذکورہ عنوان سے ایک پند نامہ منظوم اپنے بیٹے کے لیے لکھا تھا ،جو کریمی پریس ،لاہور سے شائع ہوا تھا۔اس کے آخری سرورق پر علامہ اقبال کی یک سطری 'تقریظ'ہے۔یہ کتاب آپ کی نظر سے گزری ہوگی۔ بہرحال اس وقت یہ سامنے ہے تو اس کی تقریظ نقل کیے دیتا ہوں:
تقریظ
از ترجمانِ حقیقت علامہ ڈاکٹر سر محمد اقبال ملک الشعرا مشرق                                                  سطریں مطابق اصل
مَیں نے یہ نظمیں سرسری نظر سے دیکھ لی ۔ مصنف کا جوش عقیدت |                                       
قابلِ داد ہے۔
                                                                  اقبال
یہ عبارت سبز روشنائی میں چھپی ہے۔ امتدادِ زمانہ سے روشنائی اتنی مدھم ہو گئی ہے کہ عکس نہیں بن سکتا۔ کتاب پر سالِ طباعت درج نہیں ہے، البتہ سرورق نمبر2 پر انتساب کی عمارت کے نیچے مصنف کے نام کے ساتھ یہ تاریخ درج ہے: ماہ قوس1302ش۔
شاید آپ کے علم میں ہو کہ لاہور کا مشہور کریمی پریس میرے نانا کا تھا۔ان کے انتقال کے بعد میرے ماموں ایک عر صے تک اسے چلاتے رہے۔ مَیں اس پریس کی طبع کردہ کتابیں جمع کرتا رہتا ہوں۔ مذکورہ کتاب اسی سلسلے میں میرے پاس ہے۔
اقدار مَیں نہیں خریدتا۔ شروع کے ایک دو پرچے دیکھے تو کوئی خاص بات نظر نہیں آئی۔
خط نمبر67مکاتیبِ مْشفق خواجہ بنام  ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی،ادارہ مطبْوعاتِ سْلیمانی لاہور2008 ،ص138-137))
 ڈاکٹر  وحید قریشی صاحب کتابوں کی طباعت کے سلسلے میں ذرا جلد بازی سے کام لیتے ہیں،اس لیے اْنھوں نے آپ کی کتاب کے سلسلے میں جو کچھ کیا،اْس پر مجھے تعجب نہیں ہوا۔خدا کا شکر ہے کہ یہ معاملہ آپ کے حسبِ منشا طے پا گیا۔اب اس کے پروف بھی آپ خود پڑھیے گا،ورنہ اتنی غلطیاں ہوں گی کہ آپ پریشان ہو جائیں گے۔مغربی پاکستان اردو اکیڈیمی اور بزمِ اقبال کی کوئی بھی کتاب اْٹھا لیجیے،اتنی اغلاط نظر آئیں گی،جیسے یہ کتابیں اغلاط کے نمونے کے طور پر چھاپی گئی ہوں۔اسی لیے مَیں اپنی کتاب(تحقیق نامہ) کے لیے شرط لگا دی تھی کہ مَیں اسے کراچی میں چھپواؤں گا۔ آپ کو حیرت ہو گی کہ  مَیں نے ایک مرتبہ سارے پروف  خود ڈاکٹر صاحب سے بھی پڑھوائے اور اْنہوں نے متعدّد اغلاط کی نشان دہی کی۔ اس کا نتیجہ ہے کہ  میری کتاب میں معنوی اغلاط تو مل جائیں گی،کتابت کی غلطی نہیں ملے گی۔
جی ہاں، کشور ناہید والا مضمون اس لائق نہیں تھا کہ قومی زبان میں شائع ہوتا۔ ادیب سہیل صاحب دراصل بڑے 'معصوم' قسم کے آدمی ہیں۔ اْنہوں نے غور ہی نہیں کیا کہ محتر مہ کیا کچھ لکھ گئی ہیں۔ بہرحال  اب یہ طے کیا گیا  ہے  کہ کسی زندہ ادیب پر کوئی مضمون قومی زبان میں  شائع نہیں ہوگا ۔ اور اگر شائع کرنا ضروری ہوا تو اس کی پیشگی اجازت لی جائے گی۔
ممتاز حسن مرحوم سے آپ واقف ہوں گے، ذاتی طور پر بھی اور  ایک اقبال دوست کی حیثیت سے بھی۔ ادارہ یادگار غالب 
کی طرف سے  ان کے  مضامین کا مجموعہ شائع کیا جارہا ہے(فی الحال اردو مضامین )۔ کچھ مضامین شان الحق حقی صاحب نے جمع کیے ہیں اور کچھ مَیں نے۔ کمپوزنگ ایک دو روز میں شروع ہو جائے گی۔ ممتاز صاحب نے اقبال پر کئی مضامین لکھے تھے۔جن میں اْن کے خطباتِ صدارت بھی شامل ہیں۔
آپ کے خط آتے ہیں تو جی خوش ہوتا ہے۔ آپ کے 'پے در پے' خطوں سے مَیں کیوں گھبرانے لگا۔ ہاں،جب خط نہیں آتا  ہے تو اْلجھن ہوتی ہے۔ زندگی کے کاروبار میں میرا خالص منافع آپ ہی جیسے دو چار دوست تو ہیں،جن سے مل کر اور بات کرکے اور جن کو یاد کر کے دلی مسرت ہوتی ہے۔
عبداللہ قریشی صاحب کا انتقال ہوگیا۔ کسی اخبار میں خبر نہیں چھپی، اس لیے تاریخِ وفات بھی معلوم نہیں۔
خط نمبر68مکاتیبِ مْشفق خواجہ بنام  ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی،ادارہ مطبْوعاتِ سْلیمانی لاہور2008 ص۔140-139))
ڈاکٹر معزالدّین کی کتاب بڑی حد تک ناقص ہے اور یہ موضوع آپ جیسے کسی صاحبِ نظر کا منتظر ہے۔
مجھے یہ جان کر بے حد خوشی ہوئی کہ آپ ممتاز حسن مرحوم کے قدردان ہیں۔ مجھے ان سے نیاز مندی کا تعلق تھا۔ بے حد شفیق اور مہربان بزرگ تھے۔ ان کی زندگی کے آخری چند برسوں میں  ان سے اکثر  ملاقاتیں رہتی تھیں۔ جس زمانے میں وہ مولوی عبد الحق  کے نام اقبال کے خطوط مرتب کر رہے تھے، اس زمانے میں خاصا وقت ان کے ساتھ گزرا تھا۔ کتاب کے دیباچے میں بھی انھوں نے میرا تذکرہ بڑی شفقت سے کیا ہے۔ مَیں نے اپنی زندگی میں ایسا عظیم انسان نہیں دیکھا۔ ہر شخص کی مدد پر آمادہ رہتے تھے۔ ادیبوں کو تو انھوں نے اتنے فائدے پہنچائے اور ایسے ایسے طریقوں سے کہ آپ سنیں تو حیران ہوں۔ پاکستان کے کئی اہم علمی اداروں کے وہ بانی تھے۔ اور شاید ہی کوئی ادارہ ہو،جس کی انھوں نے مدد نہ کی ہو۔
جب وہ برسرِ اقتدار تھے تو لوگ ان کی خوشامد کرتے تھے،لیکن جب وہ ریٹائر ہو گئے تو لوگ ان سے یوں کنارہ کش ہو گئے، جیسے ان کا وجود اور عدم وجود  برابر ہو ۔ مرحوم کو اس صورت حال کا شدید احساس تھا اور مرنے کے بعد اْنھیں بالکل ہی  بھلا دیا گیا۔ آپ کو یاد ہوگا کہ احمد دین والی کتاب مَیں نے  انھیں کے نام منسوب کی تھی اور حامد عزیز مدنی کا یہ شعر لکھا تھا:
وہ لوگ،جن سے تری بزم میں تھے ہنگامے
گئے  تو  کیا  تری بزمِ خیال  سے  بھی  گئے
شان الحق حقی صاحب کو مرحوم سے دلی عقیدت ہے، انھیں کے اشتراک سے ممتاز صاحب کے مضامین کا مجموعہ شائع کیا جارہاہے۔ کچھ مضمون ان کے پاس تھے، کچھ مَیں نے جمع کیے ہیں۔ توقع ہے کہ اگلے سال کے شروع میں یہ مجموعہ چھپ جائے گا۔اس مجموعے میں آپ کے مضمون کی شمولیت سے مرحوم کی روح خوش ہوگی۔ اگر وہ زندہ ہوتے تو اس مضمون کو پڑھ کر بے حد خوش ہوتے۔
ڈاکٹر معزالدین کی کتاب میں شامل متون پر اعتبار نہیں، اصل مآخذ کو دیکھوں گا۔
فروغ احمد صاحب کے انتقال کا بے حد افسوس ہوا۔آٹھ دس سال پہلے وہ کراچی میں علاج کے سلسلے میں آئے تھے تو ان سے ملاقاتیں ہوتی تھیں۔ پاشا رحمان صاحب کے ہاں ان کا قیام تھا۔ چند روز ہوئےپاشا صاحب آئے تھے تو مَیں نے ان سے کیا تھا کہ وہ فروغ صاحب کے لیے ایک مضمون لکھ دیں۔ ایک تعارفی مضمون قومی زبان کے لیے آپ بھی کسی سے لکھوا دیجیے۔
زاہد منیر عامر کے نئے تقرر سے خوشی ہوئی۔ وہ صحیح جگہ پہنچ گئے۔ خدا بخش جرنل کے تازہ شمارے میں ان کا مضمون دیکھا، بہت اچھا مضمون ہے۔
خط نمبر69مکاتیبِ مْشفق خواجہ بنام  ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی،ادارہ مطبْوعاتِ سْلیمانی لاہور 2008ص۔143-141))
محمد صلاح الدین صاحب  کے بعد تکبیر میں لکھنے کو جی نہیں چاہتا۔ مَیں نے اپنے اس ارادے سے متعلقہ لوگوں کو مطلع بھی کر دیا تھا، لیکن ایک روز رفیق افغان اور اصمعی صاحب آگئے اور انھوں نے یہ سلسلہ جاری رکھنے کے لیے کہا۔ آپ یقین کیجیے کہ مَیں صرف اور صرف صلاح الدین صاحب کے لیے لکھتا تھا ۔ اس راہ پر مجھے الطاف حسن قریشی صاحب نے لگایا اور صلاح الدین صاحب نے اس راہ سے ہٹنے نہ دیا۔ کئی مرتبہ دوسرے اخبارات سے پیشکش ہوئی، مگر مَیں نے انکار کر دیا اور  تکبیر میں بلا معاوضہ لکھتا رہا۔ سات سال لکھا اور کوئی معاوضہ نہ لیا۔ صلاح الدین صاحب بار بار کہتے رہے کہ دوبارہ کالم شروع کروں، مگر میں معذرت کرتا رہا۔ آخر جب انھوں نے یہ کہا کہ مَیں نے حرم شریف میں دعا کی ہے کہ آپ دوبارہ کالم لکھنا شروع کر دیں تو مَیں لکھنے پر مجبور ہوا(اس کی تفصیل میں نے مذکورہ کالم میں لکھی تھی)۔ اب محض ایک روایت نبھا رہا ہوں، ورنہ کالم لکھنے کو جی نہیں چاہتا، بلکہ وقت کے ضائع ہونے کا احساس ہوتا ہے۔
آج کل ایک پریشانی اور بھی ہے کہ میرے کتب خانے کا کیا ہوگا۔ 50،60 ہزار سے زیادہ کتابیں اور سالے ہیں اور خطوط کا بہت بڑا ذخیرہ ہے۔ پہلے سوچا تھا کہ حکیم محمد سعید صاحب کے بیت الحکمت میں جمع کرا دوں، مگر اْس لائبر یری کی حالت نہایت خراب ہے۔ حکیم صاحب کی شہرت طلبی اْنھیں غلط راستوں پر لے جارہی ہے۔ جو کام اْنہیں کرنا چاہیے، اْس کی طرف سے غافل ہیں۔ ان کی لائبریری میں بڑی تعداد بےکار کتابوں کی ہے۔ ڈھنگ کی کتابیں کم ہیں اور وہ بھی وقت پر نہیں ملتیں۔ نتیجہ یہ ہے کہ لائبریری کتابوں کا جنگل بن گئی ہے۔ مَیں نے سوچا تھا کہ مجلسِ ادبیات مشرق کے نام سے ایک ٹرسٹ بنا کر اپنا کتب خانہ محفوظ کر دوں، مگر کراچی کے حالات نے اس منصوبے پر عمل سے باز رکھا۔
خط نمبر70مکاتیبِ مْشفق خواجہ بنام  ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی،ادارہ مطبْوعاتِ سْلیمانی لاہور2008، ص147-146))
برادرم تحسین فراقی اور اورنگ زیب عالمگیر کو چونکہ عاشقانہ قسم کے خط لکھتا ہوں، اس لیے اس کام کی فرصت نہیں ملی۔ ان دونوں کو جلد ہی لکھوں گا۔ میرا سلام پہنچا دیجیے۔
آپ کے دونوں شخصی مضامین پڑھے۔ ان دونوں بزرگوں سے میں ناواقف تھا ۔ آپ کے مضامین سے ان کے شخصی کمالات کا اندازہ ہوا۔ شرقی صاحب کے جو شعر آپ نے درج کیے ہیں، نہایت عمدہ ہیں۔
خط نمبر71مکاتیبِ مْشفق خواجہ بنام  ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی،ادارہ مطبْوعاتِ سْلیمانی لاہور2008، ص148))
آپ کا مقالہ ، اقبالیات کے حصے کے شروع میں ہوتا ہے، گویا کتاب کے اندر ایک کتاب شامل ہے۔آپ اپنے مقالے کو اگر کسی رسالے میں چھپوانا چاہتے ہیں تو ضرور چھپوائیے۔ اس سے کتاب  پر کوئی فرق نہیں پڑے گا۔
دائرے ایک عرصے سے شائع نہیں ہوا۔ اس کے دو پرچے تیار رکھے ہیں۔ بس یہ آخری پرچے ہوں گے۔ اس کے مدیر پروفیسر حسنین کاظمی صاحب نے بتایا ہے کہ اس کے بعد پرچہ بند کر دیا جائے گا، کیونکہ مسلسل خسارے میں چلاناممکن نہیں ہے۔
خط نمبر72مکاتیبِ مْشفق خواجہ بنام  ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی،ادارہ مطبْوعاتِ سْلیمانی لاہور 2008 ص151-150))
آپ بھی سوچ رہے ہوں گے کہ اب کے تو میں نے نا شائستگی کی انتہا کر دی۔ خط کا جواب لکھا نہ کتابوں کی قیمت بھیجی، مگر آپ سبک سارانِ ساحل میں سے ہیں، آپ کو کیا معلوم کہ گردابِ بلا میں کسی پر کیا گزرتی ہے۔ پچھلے ڈیڑھ دو مہینے ایسے گزرے ،جیسے کوئی ڈراؤنا خواب۔ ڈاک تو آٹھویں دسویں دن آجاتی تھی ، مگر خط پوسٹ کرنا ممکن نہ تھا۔ ڈاک خانہ ایسی جگہ ہے کہ کسی دشمن ہی کو بھیجا جا سکتا تھا۔ خدا کا شکر ہے کہ اب صورت حال کچھ بہتر ہوئی ہے۔
خط نمبر73مکاتیبِ مْشفق خواجہ بنام  ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی،ادارہ مطبْوعاتِ سْلیمانی لاہور2008، ص152))
مقالات ممتاز کی تکمیل کے بعد بھی ممتاز صاحب کےکئی مضامین ملے۔ اْن کے متعدد خطو ط بھی دستیاب ہوئے ہیں ۔ ڈاکٹر مختارالدین احمد صاحب نے ممتاز صاحب کے خطوط بنام دوارکاداس شعلہؔ مرتب کرکے بھجوادیے ہیں۔ اب یہ چیزیں غالب میں شائع کروں گا اور موقع ملا تو اْن کی تحریروں کا بھی ایک مجموعہ شائع کردیا جائے گا۔ مرحوم سے میرے بہت قریبی مراسم تھے۔ وہ میرے حال پر بے حد مہربان تھے، مّیں نے اپنی زندگی میں دو چار بہترین انسان دیکھے ہیں،وہ اْن میں سے ایک تھے،اس لیے میری خواہش ہے کہ اْن کے علمی و ادبی کام محفوظ ہو جائیں۔ مرحوم کے پاس اقبال سے متعلق نوادر کی پوری ایک الماری تھی۔ علامہ کے ایک سو سے زیادہ خط اْنھوں نے ادھر اْدھر سے جمع کیے۔ ایما ویگے ناسٹ کے نام سے اصل خط بھی ان میں شامل تھے۔علامہ کی تمام تصانیف کےکئی کئی دستخطی نسخے تھے۔ چند نادر تصویریں بھی تھیں۔ یہ سب چیزیں ضائع ہو گئیں۔ہوا یہ کہ وہ جس مکان میں رہتے تھے ، اْس پر بنک کا قرض تھا ۔ اْن کے انتقال کے بعد مکان کی قرقی عمل میں آئی۔ تمام سامان باہر نکال دیا ، جو کئی دن تک باہر پڑا رہا۔ نوادر اقبال والی آہنی الماری کوئی چوری کرکے لے گیا۔ اور بھی بہت سے بیش قیمت کاغذات ضائع ہوئے۔ یہ بہت بڑا سانحہ ہے۔
خط نمبر74مکاتیبِ مْشفق خواجہ بنام  ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی،ادارہ مطبْوعاتِ سْلیمانی لاہور2008، ص155-154))
 نوازش علی صاحب کے انتقال کا بے حد صدمہ ہوا۔ آج سے پانچ سال پہلے ،جب وہ ایران سے واپسی پر  ڈاکٹر آفتاب اصغر  اور ڈاکٹر تحسین فراقی کے ساتھ کراچی آئے تھے تو ایک شام اْن کے ساتھ گزاری تھی۔ وہ تو بالکل نوجوان تھے۔کیا کسی حادثے میں انتقال ہوا؟ خدا مغفرت فرمائے، وہ ایک نفیس انسان تھے۔
کتاب   اقبال کی پہلی بیوی کا نیا ایڈیشن یہاں سے شائع ہو گیا ہے۔ بیگم آفتاب اقبال نے شائع کیا ہے۔ اس کے شروع میں اْنہوں نے ایوب صابر صاحب کے خلاف نہایت سخت الفاظ میں ایک مضمون لکھا ہے۔ اْن کو 'شیطان' تک کہ دیا ہے۔ بیگم آفتاب اقبال سے مَیں نے کہا ہے کہ اس کی چند کاپیاں مجھے دیں۔
ایک روز جاپان سے ڈاکٹر خواجہ محمد زکریا صاحب کا فون آیا تھا۔ خیریت سے ہیں۔
خط نمبر76مکاتیبِ مْشفق خواجہ بنام  ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی،ادارہ مطبْوعاتِ سْلیمانی لاہور2008، ص159-158))
آپ کو معلوم ہوگا کہ یکم اگست کو سیّد سعید احمد صاحب کا انتقال ہوگیا۔ آپ اْن سے بہاول پور میں ملے تھے۔ان کی وفات میری زندگی کا سب سے بڑا سانحہ ہے۔وہ عمر میں مجھ سے بہت چھوٹے تھے۔ مجھ سے اْتنے ہی قریب تھے، جتنا کہ مّیں خود ہوں۔ ایسا بے غرض محبت کرنے والا، بلکہ مجھ پر جان چھڑکنے والا، اب نہیں ملے گا۔ مّیں بھی اْنھیں اپنے حقیقی بھائی کی طرح چاہتا تھا۔وہ صرف مجھ سے ملنے کے لیے گرمیوں کی تعطیلات میں کراچی آتے تھے۔ اب کے وہ آئے تو صبح سے شام تک میرے ہاں رہتے تھے۔ رات کو بیوی بچوں کے پاس چلے جاتے تھے۔ 31 جولائی کو پانچ بجے تک بالکل ٹھیک ٹھاک تھے، دوسرے روز آنے کا وعدہ کرکے ایسے گئے کہ مجھے زندگی بھر کے لیے سوگوار کر گئے۔ اگست کا پورا مہینہ مّیں نے بستر پر گزارا، یہ اْس سانحے کا اثر تھا۔ ان کی مغفرت کے لیے دْعا کا خواستگار ہوں۔
خط نمبر77مکاتیبِ مْشفق خواجہ بنام  ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی،ادارہ مطبْوعاتِ سْلیمانی لاہور2008 ص۔161))

عارف حجازی صاحب کا کیا حال ہے؟ اْنھوں نے لاہور میں ازراہِ کرم مجھے  کلیاتِ ماہر عنایت کی تھی۔ مَیں چاہتا ہوں کہ اْن کی دلچسپی کی کچھ کتابیں اْنھیں پیش کر دوں، تاکہ وہ یہ نہ سمجھیں کہ مَیں اْن کی عنایت کو بھول گیا۔ازراہِ کرم مطلع فرمائیے کہ وہ کس قسم کی کتابیں پسند کرتے ہیں۔ ویسے ان کی گفتگو سے تو معلوم ہوتا ہے کہ ان کی پسندیدہ کتاب بہشتی زیور کے مردانہ حصّے  بہشتی گوہر کے علاوہ کوئی اور نہیں ہوسکتی۔
اب آپ میرے دونوں خط سامنے رکھ کر خط لکھیے، مگر اگلے برس نہیں، اسی سال اور اسی مہینے۔
خط نمبر78مکاتیبِ مْشفق خواجہ بنام  ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی،ادارہ مطبْوعاتِ سْلیمانی لاہور2008، ص163-162))
گھر میں ہزار طرح کی پریشانیاں ہوتی ہیں، مگر میرے گھر میں کتابوں کے سوا کچھ ہےیہی نہیں تو پھر پریشانی کیا۔ چند ماہ قبل اورنگ زیب صاحب ایک رات کے لیے تشریف لائے تھے۔ اْن کا قیام و طعام ہی نہیں، شب گزاری بھی ایک صوفے پر ہوئی۔ ایک مرتبہ اقبال مجددی صاحب رات بھر کے لیے مہمان ہوئے تو لپٹے ہوئے بستر کو کھولنے کی نوبت ہی نہ آئی کہ وہ رات بھر کتابوں کی الماریوں کے پاس کھڑے کتابوں کی گرد جھاڑتے رہے۔
مرزا  ظفرالحسن مرحوم (غالب لائبریری والے) کو جب کوئی لائبریری کے سلسلے میں مشورہ دیتا تو وہ کہتے تھے، مشوروں کی تو میرے پاس کئی الماریاں بھری رکھی ہیں، آپ کوئی عملی مدد کیجیے، اپنے مشورے اپنے پاس ہی رکھیں۔
خط نمبر79مکاتیبِ مْشفق خواجہ بنام  ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی،ادارہ مطبْوعاتِ سْلیمانی لاہور، 2008 ص164))

لاہور میں آپ کے ساتھ جتنا وقت بھی گزرا، بہت خوشگوار تھا، البتہ اس کہ شرمندگی ہے کہ مَیں بیٹی کی شادی میں شریک نہیں ہوسکا۔ مَیں اس وقت جہاز میں تھا، لیکن روحانی طور پر تقریب میں شریک تھا۔ اس طرح بیٹی میری دعاؤں کے سائے میں رخصت ہوئی۔ خدا کرے اْس کی زندگی کا نیا دور  اْس کے لیے اور تمام متعلقین کے لیے خیرو برکت کا باعث ہو۔
خط نمبر80مکاتیبِ مْشفق خواجہ بنام  ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی،ادارہ مطبْوعاتِ سْلیمانی لاہور2008، ص165))

رفاقت صاحب میرے ہاں 46 دن رہے۔ اْنہوں نے اپنے موضوعِ تحقیق (گلدستے) کے بارے میں بہت سا مواد حاصل کیا ۔ تقریباَ دس ہزار صفحے فوٹو اسٹیٹ کرائے۔ یہ بہت باصلاحیت نوجوان ہے، آپ لوگوں کی رہنمائی میں انشاءاللہ نام پیدا کرے گا۔
لاہور میں آپ سے طے ہوا تھا کہ میں ، آپ اور ڈاکٹر فراقی اور ڈاکٹر اورنگ زیب صاحب، جھنڈیر کی لائبریری دیکھنے چلیں گے۔ ایسی شاندار لائبریری شاید ہی کسی فرد کی ملکیت ہو۔
خط نمبر81مکاتیبِ مْشفق خواجہ بنام  ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی،ادارہ مطبْوعاتِ سْلیمانی لاہور2008، ص169-167))
خطوں کے جواب دینے میں آپ حضرت تحسین فراقی کے نقشِ قدم پر چل رہے ہیں۔ اْنھیں تو خیر سات گناہ معاف ہیں کہ جوانی دیوانی کے دور سے گزر رہے ہیں۔ آپ تو ماشاءاللہ گناہوں کے ایسے شائق بھی نہیں ہیں، پھر خطوں کے جواب میں تساہل سے کام کیوں لیتے ہیں۔
خط نمبر82مکاتیبِ مْشفق خواجہ بنام  ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی،ادارہ مطبْوعاتِ سْلیمانی لاہور2008، ص167))

لاہور میں ڈاکٹر وحید قریشی کے خلاف جو کچھ ہورہا ہے، اس کا سدِباب ہونا چاہیے۔ اْن کے خلاف کئی گشتی مراسلے میرے پاس آئے ہیں، جن کا لب و لہجہ ناشایستہ ہے۔ پہلے تو یہ تھا کہ ہم اپنے بڑوں کی قدر نہیں کرتے تھے، اب یہ ہورہا ہے کہ ہم انھیں ذلیل بھی کرتے ہیں۔
پچھلے دنوں اہلیہ کی طبیعت ناساز رہی۔ میری صحت بھی ڈانواں ڈول رہی۔ ایک زمانہ تھا کہ نیت ڈانواں ڈول رہتی تھی، اب یہ عالم صحت پر گزر رہا ہے۔ انقلابات ہیں زمانے کے !
ہندوستان جانے کی اطلاع دل خوش کن ہے۔ ہمارا تہذیبی و ثقافتی ماضی وہیں ہے اور اس ماضی سے ہمیں گاہے گاہے تعلق رکھنا چاہیے۔ ہندوستان جانے کو میرا بھی دل بہت چاہتا ہے مگر خود ساختہ زنجیریں وسعتِ زنجیر سے باہر نکلنے نہیں دیتیں۔
خط نمبر81مکاتیبِ مْشفق خواجہ بنام  ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی،ادارہ مطبْوعاتِ سْلیمانی لاہور2008، ص171-170))

مگر آپ کا سفر نامہ تو شرعی نوعیت کا ہوتا ہے۔ ہم جیسے آوارہ خوانوں کی خاطر اب کے دو چار اچھے چہرے بھی دیکھ لیجیے گا۔ اس کارِ خیر کا گناہ میرے سر رہے گا، آپ سے کوئی پر سش نہ ہو گی۔
خط نمبر84مکاتیبِ مْشفق خواجہ بنام  ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی،ادارہ مطبْوعاتِ سْلیمانی لاہور 2008،ص172))
دہلی میں آپ کی جو پذیرائی ہوئی، اس سے بے حد خوشی ہوئی اور سب سے زیادہ خوشی تو اس بات کی ہے کہ آج موصول ہونے والے تراشوں میں ایک ایسی تصویر بھی ہے ، جس میں ایک کنارے پر آپ ہیں اور دوسرے کنارے پر ایک خوبصورت چہرہ۔ بیچ میں جو دو آدمی کھڑے ہیں وہ کباب میں ہڈی نظر آتے ہیں۔ آپ کے چہرے پر جو بشاشت نظر آرہی ہے ، وہ دوسرے کنارے ہی کا فیضان معلوم ہوتا ہے۔ اچھا ہے، تحسین فراقی  اس تصویر میں نہیں ہیں، ورنہ وہ آپ کو محظوط ہونے کا موقع نہ دیتے اور کسے عاشقانہ بلکہ فاسقانہ غزل کہنے کے لیے مسلسل اسی طرف دیکھتے رہتے اور اس طرح آپ کے راستے کی دیوار بن جاتے۔
پروفیسر اسلم صاحب بڑی خوبیوں کے آدمی ہیں، صاحبِ علم ہیں، مگر دو باتیں نہ ہوں تو اچھا تھا۔ ایک تو  تلفظ کی غلطیاں بہت کرتے ہیں، دوسرے شعر صحیح لکھتے ہیں، نہ پڑھتے ہیں۔ محقق کے لیے موزوں طبع ہونا بہت ضروری ہے۔
خط نمبر85مکاتیبِ مْشفق خواجہ بنام  ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی،ادارہ مطبْوعاتِ سْلیمانی لاہور2008، ص175-174))
پی ایچ ڈی کے لیے دو نہیں، ہزاروں موضوعات ہیں، مگر اب ایسے طالب علم کہاں، جو محنت سے کام کر سکیں اور کام کرنے کی اہلیت اور صلاحیت رکھتے ہوں۔ جس شخص نے زندگی میں پانچ صفحات کا  ایک مضمون بھی نہ لکھا ہو ، وہ ایک دم پانچ سو صفحات کا مقالہ لکھ دیتا ہے۔ میری رائے میں تو آپ جب تک کسی طالب علم کو خوب ٹھونک بجا کر نہ دیکھ لیں، پی ایچ ڈی میں داخلہ نہ دیں۔ جلیل قدوائی اور رفیق خاور جیسے ادیب ایم اے کے مقالے کے لیے تو موضوع ہو سکتے ہیں، مگر پی ایچ ڈی کی سطح پر ان پر کام نہیں ہوسکتا۔
کلاسیکی شاعروں پر اور ان کے دواوین کی تدوین کا کام بھی ہونا چاہیے، مگر مشکل یہ ہے کہ ہماری یونی ورسٹیوں میں ایسے اساتذہ بہت کم ہیں، جو پی ایچ ڈی کا کام کرانے کی صلاحیت  رکھتے ہوں۔ آپ جیسے دو چار استادوں کو چھوڑ کر مجھے تو دور دور تک کوئی ایسا  استاد نظر نہیں آتا، جو ادب کا صحیح  ذوق رکھتا ہو اور ادب کے بارے میں اس کی معلومات وسیع ہوں۔
خط نمبر86مکاتیبِ مْشفق خواجہ بنام  ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی،ادارہ مطبْوعاتِ سْلیمانی لاہور2008، ص180-176))
یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ آپ اکرام چغتائی کی قیادت میں لندن بھی جائیں گے۔ فسق و فجور کے کاموں میں اکرام چغتائی سے بہتر رہنما نہیں مل سکتا۔
ڈاکٹر  گیان چند کل (23 اکتوبر) شام کو لاہور کے لیے روانہ ہو رہے ہیں۔ وہ آپ سے ملنے کے شائق ہیں۔
خط نمبر88مکاتیبِ مْشفق خواجہ بنام  ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی،ادارہ مطبْوعاتِ سْلیمانی لاہور2008، ص183-182))
برسلز کی کانفرنس کے لیے مقالہ ضرور لکھیے، ایسے مواقع بار بار نہیں ملتے۔ آپ کو ضرور جانا چاہیے۔
اقبال کی نثر پر آپ کی شاگرد کی کتاب اقبال اکیڈیمی نے بھیجی ہے، اچھا کام ہے۔ آپ نے بہت عمدہ مقالہ لکھوایا ہے، جی خوش ہوا۔
خط نمبر89مکاتیبِ مْشفق خواجہ بنام  ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی،ادارہ مطبْوعاتِ سْلیمانی لاہور2008، ص184))
مَیں نے آپ سے جھنڈیر  کے سردار مسعود احمد کی لائبریری  کا ذکر کیا تھا۔ یہ اس لائق ہے کہ اسے دیکھا جائے۔ وہاں قیام کا عمدہ  انتظام ہے اور کتابوں کا بے مثال ذخیرہ۔ اْنھوں نے حال ہی میں شورش کا شمیری مرحوم، عین الحق فرید کوٹی اور حمیدالدین شاہد کے کتب خانے بھی حاصل کر لیے ہیں۔
خط نمبر90مکاتیبِ مْشفق خواجہ بنام  ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی،ادارہ مطبْوعاتِ سْلیمانی لاہور2008، ص186))
 والد مرحوم کی دائمی مفارقت کا غم رفتہ رفتہ یہ کم ہو گا۔ وقت ہی ہر زخم کا اندمال ہے۔
احمد ندیم قاسمی صاحب سے بطور تبرک  چند سطریں لکھوانے کی اس لیے ضرورت ہے کہ  وہ مجلسِ ادارت و مشاورت کے صدر ہیں۔ اس طرح اس کام میں اْن کی عملی شرکت بھی ہو جائے گی۔ دوسرے اْن کی شرکت ایک بڑے ادبی حلقے میں پسندیدگی کی نظر سے دیکھی جائے گی۔
خط نمبر91مکاتیبِ مْشفق خواجہ بنام  ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی،ادارہ مطبْوعاتِ سْلیمانی لاہور2008، ص 187))
دراصل کسی تحریک کی کامیابی کی بنیاد مخلص کارکن ہی ہوتے ہیں، جو کسی صلے اور نام و نمود کی خواہش کے بغیر اپنا فرض ادا کرتے ہیں۔ آسودہ حال لوگ دراصل اس قسم کے کام کر ہی نہیں سکتے کہ آسودگی کی خواہش راستے کا پتھر بن جاتی ہے۔ آپ کے دادا کا کردار بھی مثالی تھا۔ وہ اگر اپنے بیٹوں کو تحصیل علم کے لیے مشکلات اٹھانے کا راستہ نہ دکھاتے تو ان کے بیٹے اور پوتے آج بھی کاشت کار ہوتے اور اس خاندان میں کوئی رفیع الدین ہاشمی پیدا نہ ہوتا۔ آپ کے والد  مرحوم کو ان کی  نیکیوں کا اجر تو  اگلے جہان میں مل رہا ہو گا، لیکن ایک انعام اسی دنیا میں مل گیا، اور وہ انعام آپ ہیں۔ کیا ہی اچھا ہو کہ آپ مرحوم کی مفصل سوانح عمری لکھیں کہ یہ نئی نسل کے لیے  بہت کچھ سیکھنے کا ذریعہ ہوگا۔ سوانح عمری صرف ان لوگوں ان لوگوں کی نہیں لکھی جاتی، جو اصلاحی معنوں میں بڑے ہوں۔ بڑے لوگ وہ بھی ہیں ، جو اپنے پیچھے بقول مخدوم : کام چھوڑتے ہیں، نام نہیں چھوڑتے، لہٰذا اْن کی سوانح عمری بھی لکھی جانی چاہیے۔

ایک بات درست نہیں کہ میرا نام محمود شیرانی اور مولوی محمد شفیع کے ساتھ اساتذہ  تحقیق میں شامل کر کیا گیا ہے۔ مَیں ان اساتذہ کی خاک پا بھی نہیں اور ان کے ساتھ میرا نام لینا ایک ادبی کفر ہے۔ احمد ندیم قاسمی  صاحب مجھ سے محبت فرماتے ہیں، یہ  میرے لیے باعثِ فخر ہے، مگر میرا نام اس طرح چھپے گا تو اس سے اہلِ نظر خوشگوار  اثر نہیں لیں گے۔ میری گزارش ہے کہ اس دیباچے میں سے میرا نام حذف کر دیں۔ قاسمی صاحب سے اجازت لینے کی ضرورت نہیں ہے۔ بعد میں اگر وہ پوچھیں گے  تو میں جواب دہ ہوگا۔ یہ بہت ضروری ہے۔اْمید ہے، آپ توجہ فرمائیں گے اور اگر ایسا نہ ہوا تو مجھے ناقابلِ تلافی رنج ہوگا۔ ہاشمی صاحب! ہر آدمی  اپنی تعریف سے خوش ہوتا ہے، مگر مَیں مزاجاًاس سے رنجیدہ ہوتا ہوں، کیونکہ میں خوب جانتا ہوں کہ مَیں کتنے پانی میں ہوں۔ آپ یقین کیجئے کہ قاسمی صاحب کے دیباچے میں اپنا نام اس انداز سے دیکھ کر مجھے خوشی نہیں ہوئی، کیونکہ مَیں ہرگز ہرگز ان الفاظ کا مصداق نہیں ہوں۔
خط نمبر96مکاتیبِ مْشفق خواجہ بنام  ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی،ادارہ مطبْوعاتِ سْلیمانی لاہور2008، ص 193))
جہاں دوستی کا معاملہ ہو، وہاں ہر معاملے میں احتیاط ضروری ہے۔ بعض لوگ تعلقات کی نوعیت کے مطابق رویہ بنا لیتے ہیں۔ سہیل عمر بہت اچھے آدمی ہیں، لیکن اکیڈمی سے باقاعدہ تعّلق کی صورت میں ان کا رویہ تبدیل ہوسکتا ہے۔
عارف نوشاہی صاحب کی ملازمت کے ختم ہونے کی افسوس ناک اطلاع مل گئی تھی۔ خدا کرے، اْنہیں کوئی بہتر کام مل جائے۔ اْن کی صحیح جگہ کوئی یونی ورسٹی ہی ہو سکتی ہے۔
ڈاکٹر وحید قریشی صاحب سے آپ گاہے بگاہے ملتے رہیے۔ جو شخص زندگی بھر انجمن آرائیاں کرتا رہاہو، وہ خانہ نشیں ہوجائے تْو اس پر قیامت گزر جاتی ہے۔ ہر شخص مشفق خواجہ نہیں ہوسکتا کہ مہینوں گھر سے باہر نہ نکلے اور خوش رہے۔ میرزا ادیب صاحب سے بھی کبھی کبھار مل لیا کیجئے۔ مجھے اْن کی طرف سے تشویش رہتی ہے۔ اْنھیں یہی شکایت ہے کہ کوئی اْن سے نہیں ملتا۔
خط نمبر98مکاتیبِ مْشفق خواجہ بنام  ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی،ادارہ مطبْوعاتِ سْلیمانی لاہور2008، ص 197-196))
اب کے لاہور میں پروفیسر محمد صاحب صلاح الدین صاحب کی کمی بہت محسوس ہوئی۔ خدا مغفرت کرے، دونوں اپنے اپنے انداز کے خوب صورت اور خوب سیرت انسان تھے۔ اسلم صاحب کے پاس اقبال شیدائی  سے متعلق  میرے جو کاغذات ہیں ، اْن کو حاصل کرنے کی کوشش کیجیے۔ یہ بہت نادر اور قیمتی کاغذات ہیں۔
خط نمبر99مکاتیبِ مْشفق خواجہ بنام  ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی،ادارہ مطبْوعاتِ سْلیمانی لاہور2008، ص 198))
ڈاکٹر عبدالمغنی کی بعض باتیں نہایت تعجب انگیز ہیں            مثلا ً انتظار حسین کو وہ سرے سے افسانہ نگار ہی نہیں مانتےاور نسیم
حجازی کو وہ قراۃالعین سے بڑا افسانہ نگار مانتے ہیں۔ محفلِ احباب میں مَیں نے  اْن سے چھبتے ہوئے سوال کیے اور ان کے کاموں کی داد اِن  الفاظ میں دی کہ آپ کا سب سے بڑا کارنامہ تو یہ ہے کہ آپ نے غالب اور قراۃالعین حیدر پر کتابیں لکھ کر اِن دونوں کو مشرف بہ اسلام کر دیا ۔ ڈاکٹر صاحب کا سنجیدگی سے یہ خیال ہے کہ غالب بہت پکا مسلمان تھا اور اِ س کی رندی اور آوارگی کی مثالیں جھوٹی ہیں۔ ایک موقع پر انہوں نے  اس سے انکار کیا کہ ان کا جماعتِ اسلامی سے کو ئی تعلق ہے،اِس پر میں نے اْن سے گزارش کی کہ آپ علی الاعلان ایسی بات نہ کریں، اگر جماعتِ اسلامی سے آپ لاتعلق ہو گئے تو جماعت خانہَ بے چراغ ہو جائے گی کہ اس کے پاس لے دے کر ایک آپ  ہی تو ادبی  نقاد ہیں۔ اس جملے سے وہ خود بھی محظوظ  ہوئے۔
(خط نمبر 100مکاتیبِ مْشفق خواجہ بنام ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی،ادارہ مطبْوعاتِ سْلیمانی لاہور2008، ص۔199)
ڈاکٹر عبدالمغنی کا انٹرویو خاصا 'خند آور' ہے۔ موصوف خاصے انتہا پسند ہیں اور غضب یہ ہے کہ جن ادیبوں کی تحریریں نہیں پڑھیں، اْن کے بارے میں بھی رائے دینے سے دریغ نہیں کرتے۔ ہندوستان کے سنجیدہ ادبی حلقوں میں بھی، انھیں کوئی اہمیت نہیں دی جاتی۔ جو شخص ش مظفر پوری کو قاضی عبدالودود اور کلیم الدین احمد کے برابر جگہ دیتا ہو، اْس کو سات خون معاف ہونے چاہییں؛ البتہ ایک بات اْنھوں نے صحیح لکھی ہے کہ ' بڑا نقاد تو میں خود ہوں'۔ افسوس کہ میں نے کالم نگاری ترک کردی، ورنہ نہایت اچھا کالم لکھا جا سکتا تھا۔
(خط نمبر 101مکاتیبِ مْشفق خواجہ بنام ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی،ادارہ مطبْوعاتِ سْلیمانی لاہور2008، ص۔200)


2 comments:

  • March 23, 2013 at 3:56 AM

    ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی کے نام مشفق خواجہ کے مکاتیب سے تنقیدی نکات کے استخراج سے محقق کے اعلیٰ اور پاکیزہ ذوقِ علمی کی نشان دہی ہوتی ہے۔ اس طرح کے کاموں کو بعض احباب کی جانب سے قابلِ قدر نہیں سمجھا گیا، حالاںکہ اس طریق سے ہمارے بعض اکابر کی دیگر صلاحیتوں کا پتا چلتا ہے۔ اب اگر کوئی شخص مشفق خواجہ کے دیگر مجموعہ ہاے مکاتیب سے بھی ایسے تنقیدی نکات کی نشان دہی کر دے تو خواجہ مرحوم کی تنقیدی خدمات کا بھرپور تعارف ہو سکتا ہے۔ بہرحال یہ کام کرنے والا میری مبارک باد کا مستحق ہے۔ اللہ انھیں جزاے خیر سے نوازے۔

  • March 23, 2013 at 4:00 AM

    مشفق خواجہ کے دیگر مجموعہ ہاے مکاتیب کی تفصیل یوں ہے:
    خطوطِ مشفق مرتبہ ڈاکٹر طیب منیر، مشفق نامے مرتبہ محمد عالم مختارِ حق، مکتوباتِ مشفق خواجہ مرتبہ خواجہ عبدالرحمن طارق، مکتوباتِ مشفق خواجہ مرتبہ ڈاکٹر سید حسن عباس، مراسلت مشفق خواجہ و ڈاکٹر صدیق جاوید مرتبہ ڈاکٹر صدیق جاوید، رقعاتِ مشفق خواجہ مرتبہ ڈاکٹر خالد ندیم

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔

آج کا شعر

دلوں میں فرق پڑ جائے تو اتنا یاد رکھنا تم

دلیلیں، منتیں ، سب فلسفے بیکار جاتے ہیں

Powered by Blogger.

آج کا شاعر

Faiz Ahmad Faiz