اپنی کیفیات و جذبات کو لفظوں کا پیرہن دے کر انسان خود کو ہلکا پھلکا محسوس کرتا ہے ، ہر دور میں انسان نے لوح و قلم کو تہذیب و ثقافت کا حصہ بنائے رکھا۔ اپنے غم اور خوشی کے لمحات کو پابندِ قلم کر کے ہم امر کر سکتے ہیں شاعری بھی اسی سلسلے کی ہی کڑی ہے۔ دنیا کا جتنا بھی ادب ہے وہ زیادہ تر نثر یا شاعری کی صورت ہی محفوظ ہے لیکن اس میں زیادہ مقبولیت شاعری (غزل )کے حصے میں آئی۔ لفظ مجھے بچپن سے ہی اپنی طرف کھنچتے تھے شاید شعروادب سے لگاؤ ورثے میں ملا ہے۔ بہت سارے شعرا کے کلام کو پڑھ کر لگا کہ یہ میرے ہی جذبات کی ترجمانی ہے۔ انتخاب سخن شعروادب سے محبت کرنے والے ہر شخص کے لیے ہی مشکل کام ہے یا صرف مجھے ہی لگتا ہے بہرحال میرے لیے یہ واقعی ایک مشکل امر ہے۔ انتخاب آپ سب کے سامنے ہے آرا کا انتظار رہے گا۔
غالب، میرتقی میر، ساحر لدھانوی، آتش، محسن نقوی، فیض احمد فیض، احمد فراز، پیر نصیرالدین نصیر، ن۔م راشد ، عرفان صدیقی ، عدم ، اور بھی بہت سے شاعر
میرے پسندیدہ ہیں جنہوں نے شاید میرے ہی جذبات کی عکاسی بالکل درست انداز میں کی ہے۔
فیض کا یہ شعر اکثر میری زبان پر رہتا ہے
؎ فریبِ آرزو کی سہل انگاری نہیں جاتی
ہم اپنے دل کی دھڑکن کو تری آوازِ پا سمجھے
میر تقی میر جیسا انداز اپنانے کی کوشش تو بہت سے شعرا نے کی لیکن وہ مقام نہ مل سکا جو میر کے حصے میں آیا۔
عہدِ جوانی رو رو کاٹا، پیری میں لیں آنکھیں موند
یعنی رات بہت تھے جاگے ، صبح ہوئی آرام کیا
محبت ہماری دلوں پر وارد ہوتی ہے ہمارا خود پر اختیار نہیں رہتا، جگر مراد آبادی کی غزل ملاحظہ ہو
کچھ اس ادا سے آج وه پہلو نشیں رہے
جب تک ہمارے پاس رہے، ہم نہیں رہے
یا رب کسی کی راز محبت کی خیر ہو
دست جنوں رہے نہ رہے، آستیں رہے
دردِ غمِ فراق کے یہ سخت مرحلے
دردِ غمِ فراق کے یہ سخت مرحلے
حیراں ہوں میں کہ پهر بهی تم اتنے حسیں رہے
جا اور کوئی ضبط کے دنیا تلاش کر
اےعشق ہم تو اب تیرے قابل نہیں رہے
الله رے چشم یار کے موجز بیانیاں
ہر ایک کا ہے گمان کہ مخاطب ہمیں رہے
اس عشق کے تلافی مافات دیکهنا
رونے کے حسرتیں ہے جب آنسو نہیں رہے
ایمان و کفر اور نہ دنیا و دین رہے
اے عشق شادباش کہ تنہا ہمیں رہے
محبت میں پالینے کی شرط نہیں ہوتی یہ تو دلوں کے معاملے ہیں محبت کامل ہو جائے تو راستہ آسان ہوجاتا ہے۔
نصیر ترابی نے بھی کیا خوب لکھا ہے!
میری زندگی تو فراق ہے، وہ ازل سے دل میں مکیں سہی
وہ نگاہِ شوق سے دور ہیں، رگِ جاں سے لاکھ قریں سہی
ہمیں جان دینی ہے ایک دن، وہ کسی طرح ہو کہیں سہی
ہمیں آپ کھینچئے وار پر، جو نہیں کوئی تو ہمیں سہی
سرِ طور ہو سرِ حشر ہو، ہمیں انتظار قبول ہے
وہ کبھی ملیں، وہ کہیں ملیں، وہ کبھی سہی وہ کہیں سہی
نہ ہو ان پہ میرا جو بس نہیں، کہ یہ عاشقی ہے ہوس نہیں
میں انھی کا تھا میں انھی کا ہوں،وہ میرے نہیں تو نہیں سہی
مجھے بیٹھنے کی جگہ ملے، میری آرزو کا بھرم رہے
تیری انجمن میں اگر نہیں، تیری انجمن کےقریں سہی
تیرا در تو ہم کو نہ مل سکا، تیری رہگزر کی زمیں سہی
ہمیں سجدہ کرنے سے کام ہے، جو وہاں نہیں تو یہیں سہی
میری زندگی کا نصیب ہے، نہیں دور مجھ سے قریب ہے
مجھے اسکا غم تو نصیب ہے، وہ اگر نہیں تو نہیں سہی
جو ہو فیصلہ وہ سنائیے، اسے حشر پہ نہ اٹھایئے
جو کریں گے آپ ستم وہاں وہ ابھی سہی، وہ یہیں سہی
اسے دیکھنے کی جو لو لگی، تو نصیر دیکھ ہی لیں گے ہم
وہ ہزار آنکھ سے دور ہو، وہ ہزار پردہ نشیں سہی
احمد فراز کی یہ غزل قارئین کی نذر
میں تو مقتل میں بھی قسمت کا سکندر نکلا
قرعہ ء فال میرے نام کا اکثر نکلا
تھا جنہیں زعم وہ دریا بھی مجھی میں ڈوبے
میں کہ صحرا نظر آتا تھا سمندر نکلا
میں نے اس جان بہاراں کو بہت یاد کیا
جب کوئی پھول میری شاخِ ہنر پر نکلا
شہر والوں کی محبت کا میں قائل ہوں مگر
میں نے جس ہاتھ کو چوما وہی خنجر نکلا
تو یہیں ہار گیا ہے میرے بزدل دشمن
مجھ سے تنہا کے مقابل تیرا لشکر نکلا
میں کہ صحرائے محبت کا مسافر تھا فراز
ایک جھونکا تھا کہ خوشبو کے سفر پر نکلا
پروین شاکر کی شاعری کے بغیر اور ان کے نام کے بغیر انتخاب مکمل ہو ہی نہیں سکتا، پروین شاکر میری بہت پسندیدہ (میں ان کے لیے ہستی کا لفظ استعمال کروں کو غلط نہ ہوگا)ہیں اور ان کے بارے میں ہمیشہ یہی خیال آیا کہ ان کو اتنی جلدی نہیں جانا چاہیے تھا ان جیسے لوگ تاریخ باربار پیدا نہیں کرتی۔انہوں نے جس قدر بہادری سے زندگی کے اور تقدیر کے وار کو سہا اور اپنے غم کو ہمارے معاشرے کی زبان بنایا ایسا انداز نہ کسی خاتون شاعرہ کو ملا اور نہ ہی نصیب ہوگا۔
وہ ہم نہیں جنہیں سہنا یہ جبر آجاتا
تری جُدا ئی میں کِس طرح صبر آ جاتا
فصیلیں توڑ نہ دیتے جو اَب کے اہلِ قفس
تو اور طرح کا اعلانِ جبر آ جاتا
وُہ فاصلہ تھا دُعا اور مستجابی میں
کہ دُھوپ مانگنے جاتے تو اَبر آ جاتا
وُہ مُجھ کو چھوڑ کے جس آدمی کے پاس گیا
برابری کا بھی ہوتا تو صبر آجاتا
وزیر و شاہ بھی خس خَانوں سے نکل آتے
اگر گمان میں انگارِ قبر آ جاتا
(پروین شاکر)
اچھا انتخاب کیا ہے، بات کہنے کا سلیقہ بہت عمدہ ہے۔
بہت خوبصورت انتخاب ہے :) پڑھ کر لطف آیا :)
جگر مراد آبادی کی غزل میں یہ شعر درست کردیں:
اس شعر کا دوسرا مصرع جتنی بار پڑھو ہر بار نیا ہی معنی دیتا ہے، لیکن بہرحال پہلے کے بنا ادھورا ہے :P
درد غــم فـــراق کے یه سخت مــرحلے
حیراں ہوں میں که پهر بهی تم اتنے حسیں رہے
پسندیدگی کا بہت شکریہ۔
جی با لکل میں درست کر لیتی ہوں۔ نشان دہی کا شکریہ