قیامِ پاکستان کے بعد لکھا جانے والا ادب پاکستانی ادب
کہلاتا ہے ۔ ادب کو عموماً چار اقسام میں تقسیم کیا جاتا ہے نثری، افسانوی، غیر
نثری اور شعری ادب اس کی قسمیں ہیں ۔ قیامِ پاکستان کے بعد شعری ادب کو زیادہ تر
ادیبوں نے اپنا اوڑھنا بچھونا بنایا لیکن نثری ادب لکھنے والوں نے بھی اپنا حق
صحیح ادا کیا۔
غزل کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس کا سب سے بڑا نمائندہ جس
نے اس کو باقاعدہ رواج دیا تھا۔ وہ ولی دکنی تھا۔ لیکن ولی سے غزل کاآغاز نہیں ہوتا
اس سے پہلے ہمیں دکن کے بہت سے شعراءکے ہاں غزل ملتی ہے۔ مثلاً قلی قطب شاہ، نصرتی
، غواصی ، ملاوجہی۔ لیکن ولی نے پہلی بار غزل میں تہذیبی قدروں کو سمویا ۔ اس کے بعد
ہمارے سامنے ایہام گو شعراءآتے ہیں۔ جنہوں نے بھی فن اور فکر کے حوالے سے غزل کو تہذیب
و روایات سے قریب کیا۔ایہام گوئی کے کی بعد اصلاح زبان اور فکر کی تحریک شروع ہوئی
جو مظہر جانِ جاناں نے شروع کی انہوں نے غزل میں فارسیت کو رواج دیا۔ لیکن وہ مکمل
طور پر ہندیت کو غزل سے نکال نہیں سکے۔لہٰذا اس کے بعدمیر تقی میر او ر سودا کا دور
ہمارے سامنے آتا ہے اس میں ہمیں نئی تہذیب اور اسلوب کا سراغ ملتا ہے۔ اس میں ہمیں
وہ کلچر نظر آتا ہے جو ہندی ایرانی کلچر ہے ۔وہ اسلوب ہے جس میں فارسی کا غلبہ تو ہے
لیکن اندرونی طور پر ھندی ڈکشن کے اثرات ہیں۔میر اورسودا کا دور غزل کے عہد زریں کا
دور ہے ۔ جس میں مکمل طور پر کلاسیکی پیمانوں کی پیروی کی گئی ۔
لکھنو میں غزل کا پہلا دور مصحفی ، انشاء، رنگین اور جرات کا
ہے یہاں پہلی دفعہ کلاسیکی موضوعات پر ضرب پڑتی ہے اور اسلوب اور موضوع کے حوالے سے
بہت سی نئی باتیں سامنے آئیں ۔ لکھنو کا دوسرا دور جو آتش اور ناسخ کا دور ہے اس میں
پچھلے دور کے اقدار کو مزید مضبوط کیا جاتا ہے۔ یہاں سے محبوب اور اس کی شخصیت تبدیل
ہونی شروع ہوتی ہے۔ اس سے پہلے جو پاکیزگی کا تصور تھا اس میں دراڑیں پڑتی ہیں
اس کے بعد غالب کا دو رآتا جس پر لکھنو کا اثر نظرانداز نہیں
کیا جاسکتا ۔ لیکن فکری حوالے سے اس دور میں بڑی تبدیلی نظرآتی ہے۔ یہاں سے ایسی غزل
شروع ہوتی ہے جو اپنے دامن میں تفکر کے بہت سے زاویے رکھتے ہی جس میں فلسفہ اور خاص
کر خدا ، انسان اور کائنات کارشتہ مقرر کرنا جیسے موضوعات غزل میں داخل ہوتے ہیں۔
1857ءکے بعد غزل کا وہ دور شروع ہوتا ہے جس میں کلاسیکی
عمل کے اثرات ہیں۔ یعنی رام پور کا دور ۔ اس دور میں داغ دہلوی، امیر ، جلال اور تسلیم
جیسے شاعر شامل ہیں۔
اس کے بعد صحیح معنوں میں غزل کا جدید دور شروع ہوتا ہے۔ اور
وہ ہے الطاف حسین حالی کادور اس میں کوئی شک نہیں کہ حالی نے جدید غزل کی بنیاد رکھنے
میں اہم کردار ادا کیا ۔ حالی کی غزل کی بنیاد دراصل مقصدیت پر ہے۔اس کے بعد جو اہم
نام جدید غزل کے حوالے سے ہمارے سامنے آتا ہے وہ اقبال کا ہے ۔ وہ حالی کی مقصدیت کو
آگے لے کر چلتے ہیں لیکن وسیع معنوں میں۔ اقبال صرف اخلاقیات اور مقصدی مضامین تک محدود
نہیں رہے۔ اقبال کی غزل کا مرکزی کردار مکالمے کرتا ہے ۔ فطرت سے، کائنات سے ، اور
سب سے بڑھ کر اپنے داخل سے ۔ اب غزل ایک نئے تصور کے تحت آگئی ہے۔ انسان ، خدا ، کائنات
اور فطرت کے رشتے اور پھیلی ہوئی کائنات سب اس میں موجود ہیں۔
اقبال کے بعداصغر ، فانی بدایونی ، حسرت موہانی ، جگر مراد آبادی
اور یاس یگانہ چنگیزی جدید معمار ہیں۔ اصغر تصوف کے راستے اور فانی نے موت اور یاسیت
کے راستے کائنات کی معنویت تلاش کرنے کی کوشش کی۔ جگر ایک رندی اور سرمستی کے راستے
تلاش کرتا ہے۔ جبکہ حسرت موہانی ایک نیا تصورِ عشق سامنے لاتے ہیں ۔ انھوں نے غیر مادی
تصور عشق کو مٹا کر مادی تصورِعشق دیا۔ اُس نے ایک مادی پیکر محبوب کو دیا جو اسی زمین
پر ہمارے درمیان رہتا ہے۔ جبکہ یاس یگانہ چنگیزی حقیقت کے حوالے سے اور ذات کی انانیت
کے حوالے سے اہم نام ہے۔
اس کے بعد ہمارے سامنے ترقی پسندوں کا گروپ آتا ہے جس میں بہت
سے شاعر ساحر، فیض ، مجروح، احمد ندیم قاسمی ، عدم ، جانثار اختر وغیر ہ شامل ہیں اور
ترقی پسند تحریک تک غزل پہنچتی ہے۔ اس کے بعد 1947ءکے بعد کچھ شاعر ہندوستان میں رہ
جاتے ہیں اور کچھ پاکستان میں ۔
تقسیم کے بعد : پاکستانی غزل
شروع کے پاکستانی شعرا میں سے ایسے کئی شعراءتھے جو کہ پاکستان
بننے سے پہلے شاعری کر رہے تھے ان میں سے کئی شعراءکلاسیکی رجحان سے متاثر رہے اور
انھوں نے بعد میں بھی ان کو جاری رکھا جو کلاسیکی نقطہ نظر سے وابستہ تھے وہ حفیظ ہوشیار
پوری اور حفیظ جالندھری ہیں ۔
حفیظ جالندھری:
حفیظ کی غزل پر کچھ حوالوں سے اقبال کے اثرات رہے ہیں لیکن حفیظ
کی غزل پر کلاسیکی نقطہ نظر موضوع اور اسلوب دونوں حوالوں سے اثرات پڑے۔ ترنم اور موسیقیت
ان کے کلام کی اہم خصوصیت ہے۔ اُن کی غزل پر تمام کلاسیکی شعراءمیر، غالب ، اور مومن
کے اثرات موجود ہیں۔
ارادے باندھتا ہوں ، سوچتا ہوں توڑ دیتا ہوں
کہیں ایسا نہ ہو جائے کہیں ویسا نہ ہو جائے
دیکھا جو تیر کھا کے کمیں گاہ کی طرف
اپنے ہی دوستوں سے ملاقات ہو گئی
صوفی تبسم پر بھی کلاسیکی اثرات نمایاں ہیں۔ ویسے تو یہ بچوں
کی شاعری کے لیے مشہور رہے لیکن غزل کی شاعری بھی انہوں نے خوب کی ۔ فارسی روایت کا
ان کے ہاں گہرا اثر رہا ۔ تبسم خوبصورت کلاسیکی موڈ کے ساتھ غزل کہتے ہیں۔ حسن و عشق
کی لطافت لہجے کی خوبصورتی ، ترنم و موسیقیت ان کی شاعری میں موجود ہے۔
دل کو جب بے کلی نہیں ہوتی
زندگی زندگی نہیں ہوتی
موت کی دھمکیاں نہ دو ہم کو
موت کیا زندگی نہیں ہوتی
دل تبسم کسی کو دو پہلے
مفت میں شاعری نہیں ہوتی
ترقی پسند رحجان:
اس رجحان میں وہ ترقی پسند تحریک سے وابستہ شعراءشامل ہیں جو
٧٤ سے پہلے بھی غزل کہتے رہے اور بعد میں خوبصورت غزل ان لوگوں نے کہی۔
فیض احمد فیض:
فیض احمد فیض ترقی پسند شعراءمیں ایک بہت بڑا نام ہے۔ ان کے
ہاں اردو غزل کے لہجے کی وہی روایتی خوبصورتی موجود ہے۔ جو کہ اردو غزل کا طرہ امتیاز
رہا ہے۔انھوں نے اُنہی روایتی علامات کو نیا رنگ دے کر اپنی غزل میں پیش کیا۔ اور حقیقت
اور رومان کا سنگم بنا کر غزل کہی
میدانِ وفا دربار نہیں یاں نام و نسب کی پوچھ کہاں
کچھ عشق کسی کی ذات نہیں عاشق تو کسی کا نام نہیں
جس دھج سے کوئی مقتل میں گیا وہ شان سلامت رہتی ہے
یہ جان تو آنی جانی ہے اس جاں کی تو کوئی بات نہیں
احمد ندیم قاسمی کی شاعری میں نئے محبوب کی مکمل تصویر ہمیں نظر آتی ہے جو کہ
عاشق کی طرح دکھ سہتا ہے۔ اس کے علاوہ اپنے نظریے کے حوالے سے بھی انہوں نے خوبصورت
اشعار غزل میں کہے ہیں۔
پوچھ بیٹھا ہوں میں تجھ سے تیرے کوچے کا پتہ
تیرے حالات نے کیسی تیری صورت کر دی
عمر بھر سنگ زنی کرتے رہے اہل وطن
یہ الگ بات کہ دفنائیں گے اعزاز کے ساتھ
عبدالحمید عدم کی غزل میں روانی سرور و مستی اور حسن و عشق کی
لطافت بنیادی عنصر ہے۔ خاص کر عدم کا موضوع ہمارے وہ منافقانہ روےے ہیں جو ہمارے معاشرے
میں سیاسی و سماجی حالات کے باعث پید اہوئے ہیں ۔ اس کے علاوہ سیاسی جبر کے حوالے سے
بھی عد م نے لکھا ہے۔
ہم کو شاہوں کی عدالت سے توقع تو نہیں
آپ کہتے ہیں تو زنجیر ہلا دیتے ہیں
اے عدم ہر گناہ کر لیکن
دوستوں سے ریا کی بات نہ کر
اس کے علاوہ محبت کے بارے میں اُن کے ایک شعر میں طنز کو آسانی
سے محسوس کیا جا سکتا ہے۔
اب ہم کو الزام نہ دینا
ہم بھی کچھ مجبور ہوئے ہیں
میر پرستی:
ا س میں وہ شعراءشامل ہیں جن پرہجرت نے بہت اثر
ڈالا ۔اس دور میں دکھ اور اداسیوں کی پرچھائیاں عام ہیں اس لیے اس دور میں جس شاعر
کو سب سے زیادہ یاد کیا گیا وہ میر تقی میر ہیں۔ اس طرح بہت سے شعراءمیر پرستی کا
شکار ہو گئے۔ کیونکہ میر کے دو ر اور 47 کے حالات میں تھوڑی بہت مماثلت ضرور پائی
جاتی ہے۔میرسے متاثر ہونے والے شعراءمیں ناصر کاظمی، ابن انشاء،مختار صدیقی ، اور
حفیظ ہوشیار پوری شامل ہیں۔
ناصر کاظمی کی غزل میں دکھ کی ہلکی سی سلگتی ہوئی آنچ نظر آتی ہے۔ دکھ
میں چھلبلاہٹ ہوتی ہے غصہ ہوتا ہے لیکن ناصر کے ہاں یہ چیزیں نہیں بلکہ دبی دبی کیفیت
موجود ہے جو کہ میر کا خاصہ ہے۔ لیکن ناصر میر کی تقلید نہیں کرتا بلکہ صرف متاثر نظرآتے
ہیں ۔ ناصر نے جو دکھ بیان کیے ہیں وہ سارے دکھ ہمارے جدید دور کے دکھ ہیں ناصر نے
استعارے لفظیات کے پیمانے عشقیہ رکھے لیکن اس کے باطن میں اسے ہم آسانی سے محسوس کرسکتے
ہیں۔ محض عشق نہیں بلکہ ہجرت ، جدید دور کے مسائل ،اور دوسری بہت سی چیزیں ان کی غزلوں
میں ملتی ہیں۔ مثلاً
کہاں تک تاب لائے ناتواں دل
کہ صدمے اب مسلسل ہو گئے ہیں
جنہیں ہم دیکھے کر جیتے تھے ناصر
وہ لوگ آنکھوں سے اوجھل ہو گئے ہیں
دل تو میرا اداس ہے ناصر
شہر کیوں سائیں سائیں کرتا ہے
ابن انشاء کے ہاں بھی میر کا اثر نمایاں ہے۔ ان کے ہاں دکھ کی فضاءایسی
محبت کے دکھ کی فضاءجو مکمل طور پر پختہ ہو چکی ہے اور جوانسان کو اندر سے توڑتی ہے۔
اس کا ذکر باہر نہیں ہوسکتا ۔ انشاءکے ہاں یہی درد ہمیں نظرآتا ہے۔ دوسرا حوالہ ان
کی لفظیات اور ڈکشن ہے جس پر ہندی اثرات غالب ہیں۔ جو میر کے ہاں بھی ہمیں نظرآتے ہیں
۔مقلد یہ بھی نہیں ۔ رومان سے حقیقت کی طرف آتے ہیں ۔اور دنیا میں چاند نگر بنانا چاہتے
ہیں۔ وہ اجتماعی دکھ کو چھپا کر انفرادی دکھ میں شامل کر دیتے ہیں۔
ہم رات بہت روئے بہت آہ و فغاں کی
دل درد سے بوجھل ہو تو پھر نیند کہاں کی
اللہ کرے میر کا جنت میں مکاں ہو
مرحوم نے ہر بات ہماری ہی بیاں کی
مختار صدیقی کا تعلق حلقہ ارباب ذوق سے رہا ۔ ان کے ہاں بھی زبان و بیان
اور دکھ کے حوالے سے میر کے اثرات نمایاں ہیں۔
سب خرابے ہیں تمناوں کے
کوبستی ہے جو بستی ہے یاں
شاعری میں حفیظ ہوشیار پوری ، ناصر کاظمی کے استاد رہے۔
ان کے ہاں روایت کا بڑا سلیقہ ہمیں نظرآتا ہے ۔ ان کا عاشق محبت کرتے وقت سماجی اور
تہذیبی اقدار کا بہت خیال رکھتا ہے۔ لہٰذا اس کے محبت کے باب میں ایک پردہ کا عمل ہے
شور شرابہ نہیں بلکہ ہجر و فراق کی جان لیوا کیفیات موجود ہیں
محبت کرنے والے کم نہ ہوں گے
تیری محفل میں لیکن ہم نہ ہوں گے
اگر تو اتفاقاً مل بھی جائے
تیری فرقت کے صدمے کم نہ ہوں گے
تمام عمر تیرا انتظار ہم نے کیا
اس انتظار میں کس کس سے پیار ہم نے کیا
47 سے 57 تک کے دور میں دو اور اہم شعراء قتیل شفائی
اور ادا جعفری ہیں۔
قتیل شفائی:
ان کا تعلق ترقی پسندوں سے رہا ان کی شہرت کا سبب ان کی غزلیں
اور گیت ہیں۔ ان کی غزلوں میں ترنم او ر موسقیت کا شعور ی انتظام موجود ہے ۔ محبت رومان
، قتیل کی غزل کی بنیاد ہے۔ ایسی محبت جس میں سرور و لطافت کی پرچھائیاں زیادہ ہیں
دکھ اور مایوسی کم ہے ۔ جب کے ترقی پسند سوچ کے حوالے سے بھی ان کے ہاں اشعار کثرت
سے ملتے ہیں
مل کر جد ا ہوئے تو نہ سویاکریں گے ہم
ایک دوسرے کی یاد میں رویا کریں گے ہم
گنگناتی ہوئی آئیں ہیں فلک سے بوندیں
کوئی بدلی تیری پازیب سے ٹکرائی ہے
دنیا میں قتیل اس سا منافق نہیں کوئی
جو ظلم تو سہتا ہے بغاوت نہیں کرتا
0 comments:
آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔