شہزاد احمد کے ہاں دھند اور سائےکی کیفیت تو نہیں مگر و ہ سماجی مسائل کی
طرف ضرور آتا ہے اور خارجی حقیقتوں کو بیان کرتا ہے ۔ لیکن پس منظر میں تنہائی ، سناٹا
اور نامرادی ان کے ہاں بھی موجود ہے۔ ان کے شاعری کے کردار شہر کی زندگی سے تعلق رکھتے
ہیں جن کے احساس میں منافقتیں رچی بسی ہیں۔ جن کا بنیادی المیہ بے حسی ہے۔ وہ کہنا
بہت کچھ چاہتے ہیں اور کرنا بھی لیکن وہ نہ کچھ کہہ سکتے ہیں اور نہ کر سکتے ہیں۔ اس
کے ساتھ ساتھ وطن کی مٹی کی محبت کا حوالہ بھی ان کے ہاں گہرا ہے۔
میرا وہ جادہ ہے جس پہ چلا تھا نہ کوئی
تم ہراک راہ میں نقشِ پا کفِ پا مانگتے ہو
انھوں نے سائنس ،فلسفہ ، نفسیات کے موضوعات کو بھی غزل میں جگہ
دی ہے۔ دکھ کے بیان کرتے وقت ایسے ماحول کو بیان کرتا ہے جہاں اس کے استعارے فطری ہوتے
ہیں
سوا نیزے پہ سورج آگیا ہے
یہ دن بھی اب بسر کرنا پڑے گا
بہت آتے ہیں پتھر ہر طرف سے
شجر کو بے ثمر کرنا پڑے گا
شکیب جلالی وہ شاعر ہے جس نے 35 سال کی عمر میں خود کشی کر لی ۔ مرنے کے
بعد اُس کی جیب سے ایک کاغذ کا ٹکڑا ملا جس پر یہ شعر لکھا ہوا تھا:
تونے کہا نہ تھا کہ میں کشتی پہ بوجھ ہوں
آنکھوں کو اب نہ ڈھانپ مجھے ڈوبتے بھی دیکھ
ان کے ہاں کلاسیکی لطف ضرور ہے لیکن وہ بہت سے حوالوں سے جدید
شاعر ہیں جس نے اپنی غزل میں جدید ماحول،اقدار اور جدید روےے پیش کیے ہیں ۔ ان کے ہاں
ایک گہری بے اطمینانی اور انتشار کی کیفیت موجود ہے۔ جس میں سماجی گھٹن اور تنہائی
بنیادی کردار ہیں اور یہ بے اطمینانی کا سلسلہ اس کی شخصیت سے مل جاتا ہے جس کی وجہ
سے وہ خودکشی کرتا ہے۔ محبوب کو اُنھوں نے ایک نئے زواےے سے دیکھا ایسا زاویہ جس سے
شاید آج تک کسی نے نہ دیکھا ہو ۔ ان کے ہاں سارے رویوں میں بنیادی چیز جدید دور کی
منافقت ہے جسے وہ سماج سے محبوب تک لے آیا ہے۔
دھوکے سے اُس حسین کو اگر چوم بھی لیا
پاؤ گے دل کا زہر لبوں کی مٹھاس میں
یہ اور بات وہ لب تھے پھول سے نازک
کوئی نہ سہہ سکے لہجہ کرخت ایسا تھا
ملبوس خوشنما ہیں مگر جسم کھوکھلے
چھلکے سجے ہو جیسے پھلوں کی دکا ن پر
اپنی انتشاری کیفیت کی وجہ سے وہ فطرت سے مکالمہ کرتا ہے۔اور
اپنے دکھ فطرت کے ساتھ بانٹنا چاہتا ہے۔ او رآخر یہ ساری بے اطمینانی ایک نقطے پر آکر
ختم ہوجاتی ہے جب انسان نجات حاصل کرکے وقت سے آگے نکل جاتا ہے۔
کنارے آب کھڑا خود سے کہہ رہا ہے کوئی
گماں گزرتا ہے یہ شخص دوسرا ہے کوئی
درخت راہ بتائیں ہلاہلا کر ہاتھ
کہ قافلے سے مسافر بچھڑ گیا ہے کوئی
فیصل ِ جسم پہ تازہ لہو کے چھینٹے ہیں
حدودِ وقت سے آگے نکل گیا ہے کوئی
جون ایلیا پر مشاعروں میں پڑھتے ہوئے ایک جنون کی کیفیت طاری ہو جاتی ان
کے ہاں محبت کے باب میں ایک بہت گہری شدت اور جذبے کی وارفتگی پائی جاتی ہے۔
کسی لباس کی خوشبو جب اُڑ کے آتی ہے
تیرے بدن کی جدائی بہت ستاتی ہے
میرے بغیر تجھے چین کیسے پرتا ہے
تیرے بغیر مجھے نیند کیسے آتی ہے
یہ مجھے چین کیوں نہیں آتا
ایک ہی شخص تھا جہاں میں کیا
میں بھی بہت عجیب ہوں اتنا عجیب ہو ں کہ بس
خود کو تباہ کر لیا اور ملال بھی نہیں
ایک اور مضبوط حوالہ ان کے ہاں وہی المیہ ہے جو ایک مادی دور
میں روحانی انسان کا ہے۔ ایک ایسے شخص کا جو دل کی آواز کو باہر نکال رہا ہے۔
کون اس گھر کی دیکھ بھال کرے
روز ایک چیز ٹوٹ جاتی
ہے
عبیداللہ علیم:
ان کی غزل میں محبت اور سماجی جدوجہد کے حوالے ملتے ہیں ۔ خاص
طور پر جدید دور میں تصورِ حسن و عشق میں جو تبدیلیاں ہوئی ہیں اور معاشرے کا سناٹا
، تنہائی اور خاص کر عقائد اور حقائق کی کشمکش ان کا موضوع ہے۔ان کے ہاں عاشق اور محبوب
دونوں محبت کرتے ہیں اور دکھ اُٹھاتے ہیں ۔
تم نے بھی میرے ساتھ اُٹھائے ہیں دکھ بہت
خوش ہوں کہ راہ شوق میں تنہا نہیں ہو ں میں
اُس نے پوچھا ہے بڑے پیار سے کیسے ہو علیم
اے غم ِعشق ذرا اور فروزاں ہونا
لیکن اس کے ساتھ ساتھ محبت کے باب میں اسے فکری تغیرات کا احساس
بھی ہے انسانی مزاج کی تبدیلیاں بھی ان کی نظر میں ہیں مثلاً
میں ایک سے کسی موسم میں رہ نہیں سکتا
کبھی تو وصل کبھی ہجر سے رہائی دے
اس کے ساتھ علیم کے ہاں ملک میں ہونے والے ظلم و ستم اور بد
امنی کی طرف بھی اشارے ملتے ہیں
میں یہ کس کے نام لکھوں جو الم گزر رہے ہیں
میرے شہر جل رہے ہیں میرے لوگ مر رہے ہیں
تقریباً60 کی دہائی میں بہت سے شاعروں نے محسوس کیا کہ نئی غزل
میں موضوع اور اسلوب دونوں حوالوں سے تبدیلی آنی چاہےے ۔ اس حوالے سے د و نام اہم ہیں
ظفر اقبال ، اور سلیم احمد
ظفر اقبال:
ظفر اقبال کی کتاب ”گلافتاب“ غزل میں تجربوں کے حوالے سے اہم
ہیں۔ ان تجربات کی دو جہتیں ہیں پہلی کا تعلق موضوع سے ہے اور دوسری کا تعلق اسلوب
سے ہے ۔ موضوعات میں انھوں نے روایتی موضوعات سے انحراف کرنے کی کوشش کی ان کا خیال
ہے کہ ہر خیال غزل میں آنا چاہےے ۔ جو کچھ بھی سوچا جائے بیان کرنا چاہےے ۔ اب ہر چیز
کے بیان کے عمل میں ان کے ہاں مزاحیہ کیفیت پیدا ہوتی ہے۔جہاں تک اسلوب کا تعلق ہے
تو وہ ایسے الفاظ کو غزل میں لائے جو ہماری غزل میں بہت کم استعمال ہوئے ہیں۔ انہوں
نے مقامی زبان کے الفاظ غزل میں شامل کیے :
ٹوٹے ہوئے مکاں کی ادا دیکھتا کوئی
سرسبز تھی منڈیر کبوتر سیا ہ تھا
تجربات کے علاوہ بھی اُن کے اشعار میں خوبصورت اشعار ہمیں ملتے
ہیں
یہاں کسی کو کوئی حسبِ آرزو نہ ملا
کسی کو ہم نہ ملے اور ہم کو تو نہ ملا
رو میں آئے تو خود ہی گرمئی بازار ہوئے
ہم جنہیں ہاتھ لگا کر ہی گنہگار ہوئے
جھوٹ بولا ہے ظفر تو اس پہ قائم بھی رہو
آدمی کو صاحبِ کردار ہو نا چاہیے
سلیم احمد بطور نقاد بھی اردو ادب میں اپنی ایک حیثیت رکھتے ہیں ۔ ابتداءمیں ان پر میر کا
اثر رہا پھر حسرت کا اثر نمایاں ہے اور بعد میں یاس یگانہ چنگیزی سے متاثر ہوئے ۔ ان
کے ہاں بھی غزل میں تجربات کے دو حوالے ہیں ایک اسلوبیاتی ، اور دوسرا موضوعاتی، موضوع
کے حوالے سے وہ روح کے جھمیلوں سے نکل کر جسم اور روح کے امتزاج کی طرف آتے ہیں۔ اس
طرح انھوں نے نئی غزل میں روح اور جسم ، سائنس اور جذبے کا حسین امتزاج پیش کیا ہے۔
اتنی کوشش بھی نہ کر میری اسیری کے لیے
تو کہیں میرا گرفتار نہ سمجھاجائے
وہاں دیوار اٹھا دی میری معماروں نے
گھر کے نقشے میں مقرر تھا جہا ں در ہونا
یہ کیسے لوگ ہیں صدیوں کی ویرانی میں رہتے ہیں
انھیں کمرے کی بوسیدہ چھتوں سے ڈر نہیں لگتا
اس دہائی کے زیادہ تر شاعر 47 کے بعد پیدا ہوئے اس طرح پاکستانی
ادب کے سب سے زیادہ اثرات ان پر پڑے ۔ ان کے افکار میں سیاسی حالات کے ساتھ ساتھ جنگوں
کا اثر بھی ہے ۔ خاص کر 65 اور 71 کی جنگوں کو داخلی سطح پر لیا ۔ 70 کی غزل میں مٹی
سے وابستگی کے ساتھ ساتھ تاریخی مذہبی اور اساطیری رجحان نمایاں ہے۔ ان میں بعض شعراءکے
ہاں فیض کی روایت کا اثر ہے ۔ جس میں محبت کے رویے کے ساتھ ساتھ انقلابی رویے بھی مل
جاتے ہیں ۔ ان میں تین نام سب سے اہم ہے
0 comments:
آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔