ستم پر شرطِ
خاموشی بھی اس نے ناگہاں رکھ دی
کہ اک تلوار
اپنے اور ،میرے درمیا ں رکھ دی
یہ پوچھا تھا
کہ مجھ سے جنسِ دل لے کر کہاں رکھ دی
بس اتنی بات
پر ہی کاٹ کر اس نے زباں رکھ دی
پتا چلتا نہیں
اور آگ لگ جاتی ہے تن من میں
خدا جانے کسی
نے غم کی چنگاری کہاں رکھ دی
زمانہ کیا کہے گا آپ کو اس بدگمانی پر
میری تصویر
بھی دیکھی تو ہو کر بدگماں رکھ دی
میرے حرفِ
تمنا پر چڑھائے حاشیے کیا کیا
ذرا سی بات
تھی تم نے بنا کر داستاں رکھ دی
0 comments:
آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔