Friday, May 11, 2012

خطوطِ غالب (ایک تعارف)

0 comments

میرزا اسد اللہ خاں غالب کا نام اردو ادب میں اور خاص کر شاعری میں کسی تعارف کا محتاج نہیں۔ شاعری کے علاوہ ان کی شناخت ان کی مکتوب نگاری بھی ہے اردو میں مکتوب نگاری کو غالب نے ایک نیا اسلوب دیا انہوں نے اپنے احباب اور شاگردوں کے نام خطوط لکھے۔ مہر غلام رسول مہر کی کتاب خطوطِ غالب میں ایسے ہی بہت سے خطوط شامل ہیں جو زبان و بیان میں منفرد حیثیت رکھتے ہیں۔

خطوطِ غالب “پنجاب یونی ورسٹی نے غالب کی وفات کے سو سال پورے ہونے کے موقع پر ۱۹۶۹ءمیں شایع کی ہے۔اس کتاب کے مصنف  غلام رسول مہر ہیں ۔اس کا پیش لفظ پروفیسر علاؤالدین صدیقی وائس چانسلر جامعہ پنجاب نے اور  تعارف حمید احمد خاں صدر ”مجلس یادگارِ غالب“ نے لکھا۔

”مجلس یادگارِغالب کے تعاون سے ایک سلسلہ مطبوعات شایع کرنے کا اہتما م بھی کیا ہے یہ کتاب اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔“
اورلکھتے ہیں :
”یہ کتابیں فروری ۱۹۶۹ء میں شایع ہورہی ہیں۔گویا ان کی تاریخ اشاعت سے مرزا غالب کی حیات بعد ممات کی دوسری صدی شروع ہوتی ہے ۔ مجلس کو یقین ہے کہ اس دوسرے صدی میں غالب کے قبولِ عام کی سرحدیں کچھ اور وسیع ہو جائیں گی۔“

اس کتاب کی کل دو(۲) جلدیں ہیں۔زیرِ بحث جلد اول ہے۔مصنف نے اس کتاب کا تعارف کرواتے ہوئے لکھا ہے کہ

”خطوطِ غالب کا یہ مجموعہ کسی طویل تمہید و تعارف کا متقاضی نہیں۔اس میرزا کے وہ تمام مکاتیب آگئے ہیں جو علم میں آسکے اور ان پر دسترس ہو سکی۔۔۔۔۔اس مرقع میں میرزا کے  اتنے خطوط اور بعض دوسرے رشحاتِ قلم یکجا ہوگئے ہیں کہ ان جواہر پاروں کا اتنا مجموعہ پہلے کبھی تیار نہیں ہوا۔ نامہ غالب نیز تقریظوں ، دیباچوں اور متفرق تحریروں کے علاوہ صرف خطوط کی تعداد پونے سات سو سے زیادہ ہی ہوگی، کم نہ ہوگی۔ ایک جامع مجموعے کی ترتیب میں اردوئے معلیٰ اور عودِ ہندی کی تفریق کا خاتمہ ناگزیر تھا اور وہ تقسیم قصدو ارادہ نہیں ، محض اتفاق کا نتیجہ تھی ۔“

مصنف لکھتے ہیں کہ اردوئے معلیٰ اور عودِ ہندی (غا لب کے خطو ط کے مجمو عے) میں شامل بہت سے مکاتیب ایسے تھے جو دونوں کْتب میں مشترک تھے،چناں چہ  ایک ایسی کتاب کی اشاعت کی ضرورت تھی جس میں غالب کے زیادہ سے زیادہ خطوط بغیر دہرائے شامل کیے جاسکیں ۔

اس مقصد کے علاوہ ان کتب کو شایع کرنے کے اور بھی مقاصد تھے جن کو مصنف یوں بیان کرتے ہیں :

”نئے مجموعے کی ترتیب کا مقصد صرف یہی نہ تھا کہ میرزا کے تمام اردو مکاتیب یکجا ہوجائیں۔ اس کے علاوہ بھی چند ضروری کام تھے جو بہت پہلے پورے ہو جانے چاہیے تھے تاکہ ان نگارشات کا مطالعہ زیادہ سے زیادہ سہل و مفید ،نیز زیادہ دل آویز ہوجاتا۔ ان کی مجمل کیفیت یہ ہے:
۱۔ متن کی تصحیح
۲۔ تمام مکاتیب کی تاریخ وار ترتیب
۳۔ تاریخی، جغرافیائی، علمہ و ادبی تلمیحات و اشارات کی مناسب تشریح
۴۔ ہر مکتوب الیہٰ کے احوال و سوانح کا مختصر سا خاکہ جس میں میرزا کے ساتھ تعلق کی حیثیت واضح ہو سکے۔
۵۔ بعض مشکل الفاظ و تراکیب کی توصحیح۔“

تعارف کا اختتام مصنف ان الفاظ میں کرتے ہیں:
”دلی دعا ہے کہ میرزا کے اشعار کی طرح ان کی اردو نثر بھی رواج میں ہمہ گیر شکل اختیار کرے۔ میرزا نے اپنے کلام سے استفادے کے لیے جو کچھ فرمایا تھا وہ پہلے کی طرح آج بھی حرفاً حرفاً درست ہے اور برابر درست رہے گا۔ یہ خیال کی کرشمہ انگیزی نہیں حقیقت ثابتہ کا اظہار ہے۔
؎                                                                   بک جاتے ہیں ہم آپ متاعِ سخن کے ساتھ
لیکن  عیارِ طبع     خریدار     دیکھ       کر“
اس کتاب میں کل ۵۱۸ صفحات ہیں اور ۲۱ لوگوں کے نام مکاتیب اس کتاب میں موجود ہیں۔سب سے زیادہ ہرگوپال تفتہ کے نام خطوط کا ذکر آیا ہے۔

                                ہرگوپال تفتہ ۱۲۱۴ھ(۱۷۹۹-۱۸۰۰ء) کو سکندر آباد میں پیدا ہوئے۔عمر میں یہ غالب سے صرف دو سال چھوٹے تھے۔ان کے والد کا نام موتی لال تھا ۔ان کو فارسی سے  خاصا لگاؤ تھا ، آپ نے شعر گوئی کے شوق میں ملازمت ترک کردی۔میرزا نے اپنے خطوط میں لکھا ہے کہ تفتہ نے بنک میں پیسہ جمع کروارکھا تھا اور اپنے خرچ سے کتابیں چھپواتے رہے۔میرزا نے سب سے زیادہ خطوط تفتہ کے نام لکھے ان میں سے ۱۲۴ میسر آگئے اور بیشتر سے زیادہ گم ہوگئے۔
تفتہ غالب کے بہت سعادت مند اور فرمابردار شاگرد تھےجس کی وجہ سے غالب انہیں پیار سے ”میرزا تفتہ“ کہتے تھے۔اس کے علاوہ غالب نے تفتہ کو اپنے خطوط میں ”بھائی“ ” منشی صاحب“ ”صاحب“ نورِ چشم غالب از خود رفتہ کہہ کر بھی مخاطب کیا ہے ۔ تفتہ کو بھی اپنے استاد سے بہت محبت تھی۔
تفتہ کی ایک بیٹی اور دو بیٹے تھے۔ تفتہ نے ۱۰ رمضان ۱۲۹۴ھ (۲ستمبر ۱۸۷۹ء) کو سکندر آباد میں وفات پائی ان کی کل عمر ۶۸۲ برس تھی۔

                               تفتہ کے بعد شیو نرائن آرام اکبر آبادی کے نام خطوط کا اس کتاب میں ذکر ہے۔ آرام کی تاریخ پیدایش ۱۰ستمبر ۱۸۳۳ء ہے،کم سنی میں ہی ان کی والدہ کا انتقال ہوگیا  اور آرام کی پرورش منشی بنسی دھر (جد آرام) کے چھوٹے بھائی منشی کنہیا لال نے کی ۔ ان کے کام کے بارے میں مصنف لکھتے ہیں:

”آرام کو ہیت و نجوم، نقشہ نویسی نیز فوٹو گرافی میں بھی اچھی دستگا ہ تھی۔ ”مفید الخلائق“ کے نام سے ایک مطبع قائم کیا تھا جس میں میرزا کی دو کتابیں چھپیں، اول دستنبو، دوم اردو دیوان۔ دو رسالے بھی چھاپے جاتے تھے ”مفید الخلائق “ ماہوار  اور ”معیار الشعرا “پانزدہ                  روزہ  ، دونوں کی ایڈیٹری آرام ہی کے ذمے تھی ۔ ”رسالہ بغاوتِ ہند“ بھی یہیں سے چھپتا تھا۔“
میرزا کے ننھیالی خاندان کے آرام کے خاندان سے تعلقات تھے، اسی بنا پر آرام اور غالب میں بھی اچھے تعلقات تھے۔ غالب اور آرام میں خطوط کا تبادلہ اس وقت شروع ہوا جب تفتہ نے دستنبو ”مطبع مفید الخلائق“ میں چھپنے کے لیے دی تھی۔کل ۳۵خطوط ہیں جن کے علاوہ کافی گم ہوگئے تھے۔

                                      میرزا حاتم علی بیگ مہر کے نام غالب کے خطوط کی باری اس کتاب میں تیسرے نمبر پر آتی ہے ۔ مہر ۱۸۱۵ء کو لکھنؤ میں پیدا ہوئے، کم عمری میں ہی والدہ کی وفات ہو  گئی لیکن والدہ نے ان کی تعلیم و تربیت میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔مہر نے ۱۸۴۰ء میں قانون کا امتحان پاس کیامہر کے بھائی عنایت علی بیگ بھی شاعری کرتے تھے ، ان کا تخلص ”ماہ“ تھا اور وہ آتش کے شاگرد تھے جب کہ حاتم علی کا تخلص ”مہر“ تھا ور وہ ناسخ کے شاگرد تھے۔انہوں نے اپنی زندگی لکھنؤ اور آگرے میں گزاری۔ مہر کا انتقال ۱۸۷۹ء میں ہوا ۔ ۱۸۶۰ء تک ان کے جتنے خطوط میسر آسکے ان کی تعداد ۲۰ ہے اس کے علاوہ خطوط نہ مل سکے۔
                             لوہاروخاندان کے مخلف افراد کے ساتھ بھی غالب کے عرصہ دراز تک اچھے تعلقات رہے۔ لوہارو خاندان کی آمد ہندوستان میں اٹھارویں صدی کے وسط میں ہوئی جب سمرقند سے تین بھائی قاسم جاں،عالم جاں اور عارف جاں پنجاب آئے۔ طویل عرصہ تک انہوں نے لاہور میں قیام کیا ان تین بھائیوں کی آل اولاد بعد میں ہندوستان کے مختلف شہروں میں پھیل گئی۔اس خاندان کے کچھ لوگوں سے غالب کا تعلق تھا ان کے نام اور تعدادِ خطوط مندرجہ ذیل ہے۔
نواب امین الدین احمد خاں            ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۷
نواب علاؤالدین احمد خاں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۵۷
نواب سر امیرالدین احمد خاں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۱
نواب ضیاالدین احمد خاں نیر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۱
شہاب الدین احمد خاں ثاقب۔۔۔۔۔۔۔۔۱۰
باقر علی خاں کامل۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۳
                  
                          نواب امین الدین احمد خاں ، عارف جاں کے پوتے تھے، امین الدین کے والد کا نام فخرالدولہ دلاورالملک نواب احمد بخش خاں تھا۔ نواب امین اپنے والد کے بعد رئیسِ لوہارو قرار پائے۔ ان کی وفات ۱۸۶۹ء میں ہوئی۔
                         
                          نواب علاؤالدین  احمد خاں علائی  نواب امین الدین کے بڑے بیٹے تھے اور اپنے والد کے بعد ریاست کے وارث تھے۔غالب انہیں اپنا خلیفہِ ثانی سمجھتے تھے۔ یہ اردو اور فارسی کے بہت اچھے شاعر اور ترکی زبان بھی بخوبی جانتے تھے۔ ان کی وفات اکتوبر ۱۸۸۴ء میں ہوئی۔
                            نواب علاؤالدین کے بڑے بیٹے نواب سر امیرالدین احمد خاں بھی غالب کے اقربا میں سے تھے۔ آپ” فرخ میرزا“ کے نام سے بھی جانے جاتے تھے۔

                            نواب امیں الدین کے بھائی نواب ضیا الدین احمد خاں کے بھی غالب سے تعلقات تھے۔ یہ اردو میں شاعری کے لیے نیرؔ اور فارسی میں شاعرے کے لیے درخشاںؔ  تخلص کرتے تھے۔ تاریخ کے بھی بہت بڑے علم دان تھے۔ تاریخ کے حوالے سے کتب کا ذخیرہ ان کے پاس تھا۔ ان کی وفات ۱۸۶۹ء میں ہوئی۔

                            نواب ضیاالدین احمد خاں نیر کے بیٹے شہاب الدین احمد خاں ثاقب سے بھی غالب نے خطوط کا تبادلہ کیا ۔ یہ علم و فضل میں خاندانی روایات کے حامل تھے۔ ان کو آخری عمر میں تپ و اسہال کی بیماری لاحق ہوگئی۔ غالب کی وفات کے قر یباً ۲ ماہ بعد ۱۸۶۹ء میں ان کا انتقال ہوا۔

                      باقر علی خاں کامل غالب کے متبنیٰ زین العابدین عارف کے بیٹے تھے۔ عارف کی وفات کے بعد غالب نے ہی باقر علی خاں اور اس کے بھائی حسین علی خاں شاداں کو پالا۔باقر علی خاں نے پہلے ملازمت کی اور پھر اسے چھوڑ کر تجارت اختیار کر لی۔ ان کی وفات ساڑھے اٹھائیس سال کی عمر میں ۲۵مئی ۱۸۷۶ء میں ہوئی۔

                      اس کتاب میں سالک و رضوان  کے خطوط کا ذکر بھی آیا ہے ، میرزا قربان علی بیگ خاں سالک اور شمشاد علی بیگ خاں رضوان دو بھائی تھے ان کا غالب اور لوہارو خاندان کے ساتھ اتنا گہرا تعلق تھا کہ بقول مصنف :
”انہیں اس  خاندان سے کوئی نسبت ضرور تھی“
میرزا قربان دہلی میں پیدا ہوئے وہ فارسی اور اردو دونوں میں اشعار کہتے تھے ۔ ان کی وفات ۱۸۷۶ء میں حیدر آباد میں ہوئی ان کی عمر ۸۷ سال تھی ان کے نام غالب کے دو خطوط مو جود ہیں۔
شمشاد علی بھی اچھے شاعر تھے لیکن انہوں نے کمال شطرنج میں پیدا کیا ان کی وفات ۴۰ برس کی عمر میں ۱۸۷۶ء میں ہوئی ان کے نام بھی غالب کے صرف دو خطوط موجود ہیں۔

                                       سالک و رضوان کے خطوط کے بعد اس کتاب میں مکاتیبِ  مجروح  ،سرفراز حسین  اور میرن کا  ذکر آتا ہے ۔
میر مہدی حسن مجروح غالب کے نہایت عزیز شاگرد تھےان کے والد کا نام میر فگار حسین دہلوی ہے ۔ان کے دو بھائی تھے میر سرفراز حسین اور میر افضل علی عرف میرن صاحب ۔مجروح ۱۸۳۳ء کے قریب پیدا ہوئے تھے ، دہلی سے نکلنے کے بعد وہ پانی پت رہے پھر واپس دہلی گئے،دہلی سے دوبارہ معاش نہ ملنے کی وجہ سے نکلےاور اس کے بعد انہوں نے ”جےپور اور رام پور“ میں بھی اپنی زندگی کے بیشتر ایام گزارے۔ مجروح ۱۵مئی ۱۹۰۳ء میں دہلی میں فوت ہوئے۔ مجروح کے کلام میں صفائی، شستگی اور سلاست ہوتی تھی۔ انہوں نے غالب کا مرثیہ بھی لکھا ۔ غالب نے کل ۵۰ خط ان کے نام لکھے تھے۔
سرفراز حسین کو غالب”مجہتد العلما“ کہہ کر پکارتے تھے ان کے نام غالب کے دو خطوط موجود ہیں۔
میرن صاحب نے پانی پت، حیدر آباد اور دہلی میں اپنی زندگی گزاری ۔ مصنف اس کتاب میں مولوی عبدالحق کی بات کو نقل کر تے ہیں :
”مولانا عبدالحق فرماتے ہیں کہ کسی مرید کو شاید ہی اپنے مرشد سے ایسی عقیدت ہو جیسی میرن صاحب کو غالب سے تھی۔“

ایک اور جگہ مصنف لکھتے ہیں :

”ایک مرتبہ ایک صاحب نے میرزا کا کوئی شعر پڑھا اس میں کوئی لفظ بدل گیا تھا۔سن کر میرن صاحب فرمانے لگے:میرزا صاحب کا کوئی شعر غلط نہ پڑھنا چاہیے گناہ ہوتا ہے۔“

میرن صاحب کے نام غالب کے تین خطوط ہیں۔

                                  غالب کے اگلے چند خطوط انور الدولہ شفق کے نام ہیں۔شفق پہلے میر امجد قلق کے شاگرد تھےپھر میرزا غالب نے اصلاح بینی شروع کی۔ان کے نام غالب کے کل ۲۱ خطوط ہیں ان کا انتقال ۱۸۸۰ء میں ہوا۔

                                   خواجہ غلام غوث خاں بے خبرکے نام غالب کے کل ۲۵خطوط موجود ہیں۔خواجہ صاحب کے اجداد کا تعلق کشمیر سے تھاخواجہ صاحب ۱۸۲۴ء میں نیپال میں پیدا ہوئے ۔ان کے والد کا نام خواجہ حضور اللہ ہے۔خواجہ صاب کے والد تجارت کرتے تھےتجارت کے لیے ہی وہ نیپال سے بنارس آگئے یہیں خواجہ صاحب نےابتدائی  تعلیم پائی ۔۱۸۴۱ء میں خواجہ نے انگریزی ملازمت پانے کے بعد آگرہ میں رہایش اختیار کی۔ ان کی وفات
 الہٰ آباد میں ۲۶دسمبر۱۹۰۴ء میں ہوئی رات پونے دس بجے ہوئی۔ مصنف لکھتے ہیں :
”بے حد خوش اخلاق اور وضع دار بزرگ تھے۔“

                                 غالب کے حکیم غلام علی نجف خاں سے بھی کافی عرصہ تک بہت اچھے تعلقات رہے، ان کے نام غالب کے۲۴ خطوط اس کتاب میں شایع ہوئے۔حکیم صاحب کے والد کا نام مسیح الدین تھا ان کے آباؤ اجداد کے بارے یں مصنف لکھتے ہیں :
”حکیم غلام نجف خاں کا جدِ ششم ترکستان سے ہندوستان آیا۔“

حکیم غلام اپنے خالو میر سید علی کے ساتھ پانچ برس کی عمر میں دہلی آئےتھے۔یہاں پہ انہوں نے اپنی تعلیم پوری کی اور ساتھ ساتھ طب کی تعلیم بھی حاصل کی۔ حکیم احسن اللہ خاں ،حکیم غلام کے قریبی رشتہ دار تھے۔حکیم احسن  غالب کے بہت عزیز  دوست تھے۔انہی کی وجہ سے حکیم غلام کا غالب سے تعلق قائم ہوا ۔ انہوں نے غالب سے فارسی پڑھی اور طب کا بھی علم حاصل کیا۔حکیم غلام غالب کو اپنے والد کا درجہ دیتے تھے۔ جیسا کہ انہوں نے اپنے ایک خط میں لکھا ہے :
”حکیم غلام نجف خاں، اگر تم نے مجھے بنایا ہے یعنی استاد اور باپ کہتے ہو“

حکیم غلام کی ایک بیٹی اور ایک بیٹا تھا۔ بیٹے کا نام ظہیر الدین ہے۔ظہیر الدین کے نام غالب کا صرف ایک ہی خط ہے دوسرا خط غالب نے ظہیر الدین کی طرف سے اس کے چچا کے نام لکھا تھاچونکہ تحریر غالب کی تھی اس لیے اس مجموعہ میں شامل
کیا گیا ہے۔



ایک افسانہ



گھر سے نکلنے میں صرف ۱۰ منٹ کی تاخیر ہوئی تھی اور سارے معمولات بگڑ گئے تھے ۔
اُسے اندازہ ہوگیا تھا کہ اب وہ پورے ایک گھنٹہ تاخیر سے ڈیوٹی پر پہنچے گی اور اِس ایک گھنٹہ میں کیا کیا فسانے بن گئے ہوں گے ، اُسے اِس بات کا
اچھی طرح اندازہ تھا ۔
صفیہ سے کسی بات کی توقع نہیں تھی کہ وہ کچھ ایسا کرے جس سے کوئی نئی کہانی نہ بن پائے ۔
سنی نے رو رو کے پورا کمرہ سر پر اُٹھا رکھا ہوگا ۔ رونے کی وجہ سے اُس کی آنکھیں سُرخ ہوکر سوج گئی ہوں گی جو شام تک سوجی رہے گی ۔
اُس کی آنکھوں کو دیکھتے ہی مسز آفندی اُس پر برس پڑے گی ۔
" آج پھر سنی کو رُلادیا ؟ میں تم کو الگ سے پیسے کس بات کے دیتی ہوں ؟ اگر تم سنی کے ساتھ بھی عام بچوں کا سا سلوک کرو تو پھر عام بچوں میں اور
سنی میں فرق کیا ہے؟ میں تمہاری سسٹر سے شکایت کردوں گی کہ تم مجھ سے الگ سے پچاس روپے لیتی ہو ۔"
دھمکی ایسی تھی کہ جس کے تصور سے ہی وہ کانپ اُٹھتی تھی ۔
اگر سسٹر کو پتہ چلا کہ وہ شوانی اور دُوسری عورتوں سے بھی الگ سے پیسہ لیتی ہے تو وہ ایک لمحہ بھی اُسے میں رکھنے نہیں دے گی ۔
اُس کی نوکری جاتی رہے گی ۔ اور نوکری چلی گئی تو .... ؟
اس تصور سے ہی اُس کے ماتھے پر پسینے کی بوندیں اُبھر آئیں ۔ سنی کی عادت سی بن گئی تھی کہ وہ جیسے ہی ماں سے بچھڑتا تھا ، دہاڑیں مار مار کر رونے لگتا
تھا ۔ صرف اُسی کی گود میں بہل پاتا تھا ۔
آج اُسے صفیہ کے پاس یہ سوچ کر چھوڑگئی ہوگی کہ وہ تو تھوڑی دیر میں آجائے گی اور روتے سنی کو بہلا لے گی ۔
لیکن بدقسمتی سے وہ آج ایک گھنٹہ لیٹ پہنچ رہی ہے ۔
تھوڑی دیر سے آنکھ کھلی جس کی وجہ سے گھر سے نکلنے میں دس منٹ لیٹ ہوگئی تھی جس کی وجہ سے جو بس اُسے ریلوے اسٹیشن تک لے جاتی تھی
،چھوٹ گئی ۔
دُوسری بس آنے میں ۱۵ منٹ لگ گئے ۔
اسٹیشن پہونچی تو لوکل چھوٹ گئی تھی ۔ دُوسری ٹرین ۱۵ ۔ ۲۰ منٹ لیٹ آئی جو راستے میں دس منٹ لیٹ ہوگئی ۔ پھر ریلوے اسٹیشن سے کےئر ہوم کے
لئے بس کاانتظار .....
ہر جگہ تاخیر .... تاخیر .... تاخیر !
اُسے پتا تھا اُس کے دیر سے آنے سے نہ تو سسٹر اُسے کچھ بولے گی اور نہ سندھیا ۔
دونوں کو پتا تھا کہ وہ کافی دُور سے آتی ہے ۔ سات بجے ہوم پہونچنے کے لئے اُسے رات ساڑھے پانچ بجے گھر چھوڑنا پڑتا ہے ۔ اِس کے باوجود وہ کبھی کبھار
ہی لیٹ ہوتی تھی ۔ اس میں اِس کا عمل دخل نہیں ہوتا تھا ۔ لوکل یا بس لیٹ ہونے کی وجہ سے ہی تاخیر سے کےئر ہوم پہونچ پاتی تھی ۔
اور پھر دِن بھر 35 بچوں کی ماں بن کر اُن کا خیال رکھتی تھی ۔کبھی کبھی تو بچوں میں اِتنی اُلجھ جاتی تھی کہ دوپہر کا کھانا بھی نہیں کھا پاتی تھی ۔
روزانہ کا یہ معمول تھا جب بھی وہ دوپہر کا کھانا کھاتی تھی ۔ اُس کی گود میں کوئی نہ کوئی روتا ہوا بچہ ضرور ہوتا تھا ۔ وہ کھانا بھی کھاتی اور بہلاتی بھی ۔
کےئر ہوم میں جتنے بھیcustomer تھے سب اُس سے خوش تھے ۔
چھوٹے بچے تو زبان سے اِس کی خدمت کے بارے میں اپنے ماں باپ کو کہہ نہیں پاتے تھے ۔ لیکن جب وہ اُسے دیکھ کر ماں کی گود سے اُس کی طرف
ہاتھ پھیلا کر مسکراتے ، لپکتے تھے تو ماں باپ اندازہ لگا لیتے تھے وہ اُن کے بچوں کا کتنا خیال رکھتی ہے ۔
ہاں بڑے بچے جو بول سکتے تھے وہ ماں باپ سے تعریف کرتے تھے ۔
" رادھا آنٹی بہت اچھی ہیں ، ہم سے بہت پیار کرتی ہیں ، ہمارا بہت خیال رکھتی ہے ، ہم سے بڑی اچھی اچھی باتیں کرتی ہیں ۔ "
اِس وجہ سے گاہکوں میں اُس کی امیج بہت اچھی تھی ۔
لیکن کبھی کبھی کوئی نہ کوئی ایسی بات ہوجاتی تھی جس کی وجہ سے اُس کی امیج کو دھکّا پہونچنے کا خطرہ پیدا ہوجاتا تھا ۔بلکہ اُسے اپنی نوکری بھی خطرے میں
محسوس ہوتی تھی ۔
اور نوکری خطرے میں پڑنے کے تصور سے ہی وہ کانپ اُٹھتی تھی ۔
بوڑھے ماں باپ ، دو جوان بہنیں اور دو نکمّے ، آوارہ بھائیوں کی نگہداشت کا سارا بوجھ اُسی پر تھا ۔ سسٹر اُسے تنخواہ کے طور پر ۳ ہزار روپے دیتی تھی ۔
اُسے اِس بات کا علم تھا کہ وہ اچھی سے اچھی غیر سرکاری نوکری بھی کرتی تو شاید اُسے اِتنی تنخواہ نہیں ملتی ۔ اِس کے علاوہ بچوں کے ماں باپ اُسے خوشی
سے چالیس پچاس روپے ہر مہینہ دے دیتے تھے ۔ یہ سوچ کر کہ اِس لالچ سے شاید وہ اُن کے بچے کا اچھی طرح سے خیال رکھے گی ۔
اس نوکری کے چھوٹ جانے کا مطلب تھا پھر سے ایک بار بے کاری کے غار میں بھٹکنا ، ماں باپ کی جھڑکیاں ، بہنوں کے طعنے اور بھائیوں کی گالیاں سننا
۔
گھر کے حالات کچھ ایسے ہوگئے تھے کہ اگر اُسے کسی کے گھر میں برتن مانجھنے کا کام بھی مل جاتا تو وہ بھی کرنے کے لئے تےّار ہوجاتی ۔
اس کے مقابلے تو یہ کافی اچھا ، مختلف اور آمدنی والا کام تھا ۔
اُسے کےئر ہوم میں 35بچوں ک دیکھ بھال کرنی پڑتی تھی ۔
شہر کی ایک بڑی سی رہائشی کالونی میں سسٹر روزی نے یہ چلڈرن کےئر ہوم جاری کر رکھا تھا ۔
اِس کالونی میں زیادہ تر افراد نوکری پیشہ تھے ۔ ان میں سے کئی ایسے بھی تھے ۔ دونوں میاں بیوی نوکری کرتے تھے ۔ ان کے گھر میں بچوں کی دیکھ بھال
کرنے والا کوئی نہیں تھا۔
بچے دو ماہ سے لے کر دس سال تک تھے ۔
اُن بچوں کو وہ کس کے سہارے اکیلے گھر میں چھوڑ کر دُور دراز کے علاقوں میں نوکری کے لئے جائیں ؟
پورے وقت کے لئے وہ نوکرانی نہیں رکھ سکتے تھے ۔ کیونکہ ایسے کاموں کے لئے نوکرانیاں اتنی تنخواہ کی مانگ کرتی تھیں جو اُن کی کل تنخواہ کے نصف
سے بھی زائد ہوتی تھی ۔
ایسے تمام نوکری پیشہ افراد کا وہ واحد سہارا سسٹر روزی کا چلڈرن کےئر ہوم تھا ۔
مائیں اپنے بچے ڈیوٹی پر جاتے ہوئے کےئر ہوم میں چھوڑ جاتی تھیں اور شام کو ڈیوٹی سے واپس آتے ہوئے اُنھیں واپس اپنے گھروں کو لیکر جاتی تھیں ۔
اِس طرح اس کےئر ہوم میں روزانہ سیکڑوں بچے آتے اور دِن بھر وہاں رُک کر شام کو واپس اپنے گھروں کو چلے جاتے تھے ۔
ان بچوں کی دیکھ بھال کے لئے سسٹر روزی نے کئی نوکرانیاں رکھی تھیں ۔وہ بھی اُن میں سے ایک تھی۔ اس کے ساتھ ساتھ صفیہ بھی تھی ۔ دونوں
مل کر ۳۰ بچوں کا خیال رکھتی تھیں ۔
صفیہ اور اُس میں زمین آسمان کا فرق تھا۔
وہ ایک گریجویٹ ، سلجھی ہوئی لڑکی تھی ۔
لیکن صفیہ ایک جاہل ، اُجڈ اور گنوارقسم کی عورت تھی۔
وہ سویرے۷ بجے سے رات کے ۸ ۔ ۹ بجے تک ڈیوٹی دینے پر یقین رکھتی تھی، بچوں کا کس طرح خیال رکھا جائے اُس نے سیکھا نہ تھا اور نہ اُسنے سیکھنے کی
ضرورت محسوس کی تھی ۔
" ارے ! میں اپنے بچوں کا اِس طرح سے خیال نہیں رکھتی ہوں تو کیا اِن لوگوں کا خیال رکھوں۔ اُن کے ماں باپ نے کیا اُنھیں ہمارے لے جنا ۔ پیدا کیا
اُنھوں نے اور یہاں ہمارے پاس لاکر چھوڑ گئے ۔ "
"صفیہ تم اس کام کے پیسے بھی تو لیتی ہو ؟ "
" بی بی میں پیسے ان بچوں پر نظر رکھنے کے لیتی ہوں ۔ یہ کمرے کے باہر تو نہیں جارہے ہیں ۔ کوئی اُنھیں اغوا کرنے کی کوشش تو نہیں کررہا ہے ؟ رات
دِن ان کی خدمت کرنے کے نہیں ؟ "
صفیہ کی باتوں اور حرکتوں سے اسے اُلجھن ہوتی تھی ۔ اسے سندھیا کی نہ تو کوئی بات پسند تھی اور نہ کوئی حرکت ۔ کبھی کبھی دِل میں آتا تھا کہ وہ سسٹر
سے اس کی شکایت کردے یا پھر سسٹر سے کہہ کر سندھیا کے بدلے میں کسی اور کو اپنے معاون کے طور پر مانگ لے ۔
مگر اس کا انجام کیا ہوگا اُسے اس بات کا اندازہ تھا ۔
ار وہ سسٹر سے صفیہ کی شکایت کرتی تو سسٹر اُے فوراً اُسے اِس کام سے نکال دیتی ۔
یا وہ صفیہ کے بدلے میں کسی اور کو مانگ لیتی تو سندھیا جس کسی کے ساتھ رہتی اُ س کی حرکتوں کی وجہ سے وہ سسٹر سے اُس کی شکایت ضرور کرتی
اور سسٹر اُسے کام پر سے نکال دیتی ۔
اور وہ نہیں چاہتی تھی کہ صفیہ کی نوکری جائے ۔
کیونکہ اُسے پتا تھا صفیہ بھی اُسی کی طرح بہت ضرورت مند ہے ۔
اِسی نوکری پر اُس کا گھر چلتا تھا ۔
اُس کا ایک آوارہ شرابی شوہر تھا جو کام نہیں کرتا تھا لیکن روزانہ شراب پینے کے لئے اُس سے لڑجھگڑ کر پیسے ضرور لے جاتا تھا ۔ اُس کے چار بچے تھے ۔
سب سے چھوٹا لڑکا ۲ سال کا تھا ۔وہ اُن سب کو اکیلا اپنے گھر چھوڑ کر آتی تھی ۔ ان سب کا خیال اس کی بڑی لڑکی رکھتی تھی ۔ جس کی عمر ۱۰سال کے
قریب ہوگی ۔
صفیہ کا اس نوکری سے نکال دیا جانا ان سب کے لئے غربت کا پیغام لے کر آتا ۔ اس لئے وہ صفیہ اور اس کی حرکتوں کو برداشت کئے جارہی تھی ۔
vان کے پاس جو 35 بچے تھے ان میں سے تقریباً دس بچے ایک سال سے بھی کم عمر کے تھے ۔سنی اور مون صرف دو ماہ کے تھے ۔ دس بچے پانچ سال سے
کم کے تھے باقی پانچ سال سے بڑے تھے ۔
بڑے بچے ان کے لئے کوئی مسئلہ نہیں تھے ۔
جب ان کے ماں باپ اُنھیں چھوڑ کر جاتے تھے تو ان کا اسکول کا بستہ ان کے ساتھ ہوتا تھا ۔وہ بچے ایک کونے میں بیٹھ کر پڑھائی کیا کرتے تھے ، جب
ان کی اسکول کا وقت ہوجاتا تو وہ دونوں ان بچوں کو یونیفارم پہنا کر تیار کرتیں اور اسکول کی بس یا رکشاتک چھوڑ آتیں ۔
ان میں سے کچھ بچے اسکول چھوٹنے کے بعد سیدھے گھر چلے جاتے تھے ۔کیونکہ تب تک ان کے ماں باپ گھر واپس آجاتے تھے ۔کچھ بچے اسکول سے
دوبارہ کئیر ہوم میں آجاتے تھے ۔ کیونکہ ان کے ماں باپ دیر سے گھر آتے تھے ۔ اِس لئے وہ ڈیوٹی سے آکر اُنھیں ہوم سے لے کر جاتے تھے ۔
پانچ سال کے بچے آپس میں یا پھر کمرے میں رکھے کھلونوں سے کھیلا کرتے تھے ۔
سب سے بڑا مسئلہ ۲ ماہ سے ۱ سال کی عمر کے جو بچے تھے ، ان کا تھا ۔ ایک ایک لمحہ ان کا خیال رکھنا پڑتا تھا ۔ اُنھیں وقت پر دُود ھ ، دو ائیں یا دُوسری
چیزیں دینا ۔ پیشاب ، پاخانے کی صورت میں اُن کے کپڑے تبدیل کرنا ، رونے کی صورت میں اُنھیں بہلانا ۔
پھر عام طور پر اس عمر کے بچے صرف ماں باپ سے ہی بہلتے ہیں ۔ ایک بار اگر رونا شروع کردیں تو پھر اُنھیں بہلانا بہت مشکل ہوتا ہے ۔
بڑے بچوں کو تو مار کے خوف سے چپ کرایا جاسکتا ہے ۔
لیکن اِس عمر کے بچوں کے سامنے یہ ہتھیار بھی ناکارہ ثابت ہوتا تھا ۔ ایسی بچوں کا وہ ماں بن کر خیال تو رکھ سکتی تھی لیکن ماں نہیں بن سکتی تھی ۔ بچے
ماں کے لمس سے ہی چپ ہوجاتے ہیں ۔ بھلے وہ اُنھیں لاکھ ماں سا لاڈ ، پیار ، دُلار دے لیکن ماں کا لمس کیسے دے سکتی تھی ۔جس سے وہ آشنا تھے ۔
اُسے پتا تھا اگر اس نے کسی بھی بچے کو سنھالنے میں ذرا بھی لاپرواہی کی تو اِس کی سزا اسے ہی بھگتنی پڑے گی۔
راہیہ کو ہر ایک گھنٹے کے بعد دوا دینی پڑتی تھی ۔ اگر اس نے اسے باقاعدگی سے دوا نہیں دی تو وہ بیمار ہوجائے گی ۔ راہیہ کی ماں صرف رات بھر اسے
سنبھالے گی ۔دُوسرے دِن وہ اس کے پاس چھوڑ کر جائے گی اور دُوسرے بچوں کے ساتھ بیمار راہیہ کو اسی کو سنبھالنا پڑے گا ۔ علی کو ہر ایک گھنٹے پر دُودھ
دینا پڑتا تھا ۔ اگر اُسے دودھ نہ ملے تو وہ رو رو کر سارا کمرہ سر پر اُٹھا لیتا تھا ۔ اور اُسے روتا دیکھ کر دوسرے بچے بھی رونے لگتے تھے ۔بچوں کو یہ عادت
ہوتی ہے کہ اگر وہ کسی کو روتا ہوا دیکھتے ہیں تو خود بھی رونا شروع کردیتے ہیں ۔
اِس سے بہتر تھا کہ ۱۵۔ ۲۰ روتے ہوئے بچوں کو سنبھالنے کے بجائے گوتم نہ روئے اس بات کی ترکیب کی جائے ۔
سارا کی صرف ماں ہے ۔اُس کے باپ نے کسی اور کے ساتھ دُوسری شادی کرلی ہے ۔ مجبوراً اپنا گھر چلانے کے لئے اس کی ماں کو نوکری کرنی پڑی ۔ وہ
آٹھ مہینے کا ہے ۔اس کی ماں اس کے پاس چھوڑ کر نوکری کرنے جاتی ہے ۔
جب ماں باپ کئیر ہوم میں بچے چھوڑ کر جاتے ہیں تو ان کے لئے سیکڑوں ہدایتیں دے جاتے ہیں ۔
" ہر دوگھنٹے کے بعد دُودھ پلاتی رہنا ، دوا باقاعدگی سے دینا ، Pamper فوراً صاف کردینا ، زیادہ دیر کھلا رہنے سے اُسے سردی ہوجاتی ہے
۔ ڈاکٹر نے سختی سے منع کیا ہے تو بچے کو سردی نہیں ہونی چاہےئے ۔ اس بار سردی ہوئی تو اسے نمونیہ ہونے کا ڈر ہے ۔ دوپہر کو کپڑے بدل کر کاجل
پاؤڈر لگادینا ۔ شام کو بچہ اچھی حالت میںہونا چاہےئے ۔
چھوٹے بچوں کے لئے تو ہدایتیں تھیں ۔ بڑے بچوں کے لئے کوئی ہدایتیں نہیں ہوتی تھیں ۔ کیونکہ بچے خود ہدایت دیتے تھے ۔
" ممی نے کہا ہے ۔ ۱۱ بجے دوائی دیجئے گا ۔"
" ممی نے کہا ہے ۔۱۰ بجے وہ چاکلیٹ کھالینا جو اُنھوں نے دی ہے ۔ "
" ممی نے کپڑے بدل کر نہلانے کے لئے کہا ہے ۔"
بچے خود فرمائش کرتے ، ایسے بچوں کی فوراً فرمائش پوری کرنی پڑتی تھی ۔ نہ کرنے کی صورت میں وہ باپ سے شکایت کردیتے ، ماں باپ اُسے باتیں
سناتے اور سسٹر روزی کو بھی شکایت کردیتے اور اسے سسٹر روزی کی بھی باتیں سننی پڑتیں ۔ ان تمام خوف اور ڈر سے بے نیاز کوئی تھا تو وہ صفیہ ۔
ہر بچے سے وہ پوچھتی ۔
اے آج ٹفن میں کیا لایا ہے ؟ "
اگر بچے کے ٹفن میں کوئی اچھی چیز رہتی تو وہ اسے خود کھاجاتی تھی ۔ بچوں کے چاکلیٹ بسکٹ بھی آدھے سے زیادہ خود کھالیتی تھی ۔ ذرا ذرا سی بات پر
بچوں کو بری طرح مارتی تھی اور اُنھیں دھمکاتی بھی تھی ۔ اگر اُنھوں نے اپنے ماں باپ سے شکایت کی تو کل اس سے زیادہ مار پڑے گی ۔
اس دھمکی کے بعد بچے شکایت نہیں کرتے تھے ۔اگر کسی نے کچھ کہہ دیا اور اسے باتیں سننی پڑتی تھی تو دُوسرے دِن اس بچے کو اس بری طرح مارتی
تھی کہ وہ دوبارہ ایسی غلطی نہیں کرتا تھا ۔
اُسے یہ سب اچھا نہیں لگتا تھا ۔
اُس کی سوچ الگ تھی ۔
اُسے ماں باپ کے دِلوں کا پتا تھا ۔
ماں باپ اپنے بچوں کو ایک لمحہ کے لئے بھی کبھی جدا نہیں کرتے تھے ۔ اگر وہ جدا کرتے بھی ہیں تو ان کی کوئی نہ کوئی مجبوری ہوتی ہے ۔ جو ماں باپ
اپنے بچوں کو ان کے پاس چھوڑ جاتے ہیں وہ سب مجبور ہیں ۔ پیٹ کی خاطر ، روزی ، روٹی کی خاطر وہ اتنا بڑا پتھر اپنے دِل پر رکھتے ہیں ۔
ایسے میں ان ماں باپ کے جذبات سے کیوں کھیلا جائے ۔
سسٹر روزی ان بچوں کو سنبھالنے کے اسے پیسے دیتی ہے ۔
پھر اپنے کام سے ایمانداری کیوں نہ برتی جائے ۔ بے ایمانی برت کر کیا حاصل ؟
اُس کی شادی نہیں ہوئی تھی ۔
لیکن ان بچوں کوسنبھالتے سنبھالتے کب اس کی ان کی ماں کا روپ دھار لیا اسے خبر بھی نہ ہوئی

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔

آج کا شعر

دلوں میں فرق پڑ جائے تو اتنا یاد رکھنا تم

دلیلیں، منتیں ، سب فلسفے بیکار جاتے ہیں

Powered by Blogger.

آج کا شاعر

Faiz Ahmad Faiz