Saturday, June 2, 2012

متفرق اشعار (Two line poetry)

0 comments


مدت میں شامِ وصل ہوئی ہے مُجھے نصیب
دو چار سو برس تو______ الہٰی سحر نہ ہو
٭٭٭٭
وہ روز آتے ہیں، ملتے ہیں،حال پوچھتے ہیں
یہ اور بات کہ دل کو قرار یوں بھی نہیں
٭٭٭٭
لیلیٰ ترے صحراوں میں محشر ہیں ابھی تک
اور بخت میں ہر قیس کے پتھر ہیں ابھی تک
٭٭٭٭
بچھڑ کے تجھ سے چلے ہم تو اب کے یوں بھی ہوا
کہ تیری یاد کہیں راستوں میں چھوڑ آئے
٭٭٭٭
کہتے ہیں لوگ تجھ کو مسیحا مگر یہاں۔۔۔
اک شخص مر گیا ہے تجھے دیکھنے کے بعد
٭٭٭٭
تو مطمئن نہیں تو مجھے کب ہے اعتراض
مٹی کو پھر سے گوندھ میری، پھر بنا مجھے
٭٭٭٭
نظر عذاب ہے اب پاؤں میں ہو اگر زنجیر
فضا کے رنگ کو دیکھوں کہ بال و پر دیکھوں
٭٭٭٭


نا معلوم کیا سازش ہے دل کی
کہ خود ہی مات کھائی جا رہی ہے
ہے ویرانی کی دھوپ اور ایک آنگن
اور اس پر لُو چلائی جا رہی ہے
٭٭٭
محرومیوں کے دور میں کن حسرتوں کے ساتھ
ہم پتھروں کے دل میں خدا ڈھونڈتے رہے
٭٭٭٭
کل بزرگوں کے اثاثے کی جو تقسیم ہوئی
مال و زر چھوڑ دیا میں نے ، قناعت رکھ لی
٭٭٭٭
انہی قدموں نے تمھارے انہی قدموں کی قسم
خاک میں اتنے ملائے ہیں کہ جی جانتا ہے
٭٭٭٭
شہرِ خوبی کو خوب دیکھا میرؔ
جنسِ دل کا کہیں رواج نہیں
٭٭٭٭
ساغر سکون دے گئی ____ دل کی کسک ہمیں
اکثر خوشی کی بات سے رنجور ہو گئے۔۔
٭٭٭
نیندوں کے بغاوت سے یہ نقصان ہوا ہے
اک شخص کے خوابوں کو ترستی رہیں آنکھیں
٭٭٭٭
رسوا کرے گی یہ جو نمی چشم تر میں ہے
اشک پی جاؤ بات ابھی گھر کی گھر میں ہے
نقش فریادی ہے کس کی شوخیِ تحریر کا
کاغذی ہے پیرہن، ہر پیکرتصویر کا
٭٭٭٭
میرے اک گوشہ فکر میں میری زندگی سے عزیز تر
میرا اک ایسا بھی دوست ہے جو کبھی ملا نہ جدا ہوا
٭٭٭٭
دیکھنا بھی تو انہیں دور سے دیکھا کرنا
شیوہ عشق نہیں حسن کو رسوا کرنا
٭٭٭٭
ہم دوھری اذیّت کے گرفتار مسافر
پاؤں بھی ہیں شل، شوقِ سفر بھی نہیں جاتا
٭٭٭٭
  
احباب دور اندیش ہیں بھولے نہیں
جب بولنے کا وقت تھا بولے نہیں
٭٭٭٭
زندگی بھر کی شناسائی چلی جاۓ گی
گھر بسا لوں گا تو تنہائی چلی جاۓ گی
٭٭٭٭
برنگ شعلہ غم عشق ہم سے روشن ہے
کہ بے قراری کو____ ہم برقرار رکھتے ہیں
٭٭٭٭





تمہاری بھول ہے پیارے کہ اِس کو مار دوگے تُم
محبت وہ بَلا ہے جو خِضر کی گود کھیلی ہے
٭٭٭٭
اک لمحے کو مرے پاس آؤ
اور لمحے کی آنکھ لگ جائے
٭٭٭٭

کسے پکار رہا تھا وہ ڈوبتا ہوا دن

صدا تو آئی تھی، لیکن کوئی دہائی نہ تھی

کہ دھوپ چھاؤں کا عالم رہا، جدائی نہ تھی

وہ ہمسفر تھا مگر اُس سے ہمنوائی نہ تھی
٭٭٭٭
چمکتا ہے ہمارے نام کا تارا جہاں
نہ جانے کس افق کے پار ہے وہ کہکشاں
٭٭٭٭
میں آج تک بھولا نہیں آداب- جوانی ....
میں آج تک کسی کو نصیحت نہیں کرتا
٭٭٭٭
ذکر_اغیار سے ھوا معلوم
حرف_ناصح برا نہیں ھوتا.
٭٭٭٭

ناوک انداز جدھر دیدۂ جاناں ہوں گے
نیم بسمل کئی ہوں گے، کئی بے جاں ہوں گے

سنگ اور ہاتھ وہی، وہ ہی سر و داغِ جنوں
وہی ہم ہوں گے، وہی دشت و بیاباں ہوں گے
٭٭٭٭

یہ ہے تعمیرِ دنیا کا زمانہ
حویلی دل کی ڈھائی جا رہی ہے
٭٭٭٭

لوگ کہتے ھیں محبت میں اثر ھوتا ھے
کون سے شہر میں ھوتا ھے کدھر ھوتاھے
٭٭٭٭

نہ گئی تیری بے رخی نہ گئی
ہم تری آرزو بھی کھو بیٹھے
٭٭٭٭

لمحاتِ مسرت ھیں تصور سے گریزاں
یاد آئے ھیں جب بھی غم و آلام ھی آئے
٭٭٭٭

اے دل کوئی نہیں
کوئی نہیں ، کوئی نہیں
دروازہ فقط تیز ہوا سے کھلا تھا
٭٭٭٭

جگر ہو جائیگا چھلنی یہ آنکھیں خون روئیں گی

وصی بے فیض لوگوں سے نبھا کر کچھ نہیں ملتا
٭٭٭٭

تو پری شیشے سے نازک ہے نہ کر دعویِ مہر
دل ہیں پتھر کے انہوں کے جو وفا کرتے ہیں

تجھ بن اس جانِ مصیبت زدہ عمدیدہ پہ ہم
کچھ نہیں کرتے تو افسوس کیا کرتے ہیں

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔

آج کا شعر

دلوں میں فرق پڑ جائے تو اتنا یاد رکھنا تم

دلیلیں، منتیں ، سب فلسفے بیکار جاتے ہیں

Powered by Blogger.

آج کا شاعر

Faiz Ahmad Faiz