Saturday, April 21, 2012

اقبال -سوانح اور شاعری

1 comments

سوانحی خاکہ:

                                 علامہ اقبال اپنی ذات میں ایک دبستان ہیں۔ دبسان لاہور کی منفرد اور اعلیٰ نمایندگی ان کے دم سے ہوتی ہے ۔ اقبال شاعری کی تاریخ میں ایک عصر جدید کے معمار ہیں۔اقبال ۹ نومبر ۱۸۷۷ء کو سیالکوٹ میں پیدا ہوئے ، یہ سرزمینِ پنجاب کا ہمیشہ  سے ایک مردم خیز خطہ رہا ہے ان کا تعلق کشمیری برہمنوں کی ایک گوت ”سپرو“ سے تھا۔ اقبال کے والد شیخ نور محمد پرہیزگار اور عبادت گزار انسان تھے۔اقبال کی والدہ امام بی بی بھی بہت نیک سیرت خاتون تھیں۔
اقبال کے آبا‌ ؤ اجداد اٹھارویں صدی کے آخر یا انیسویں صدی کے اوائل میں کشمیر سے ہجرت کر کے سیالکوٹ آئے اور محلہ کھیتیاں میں آباد ہوئے۔
علامہ نے ابتدائی تعلیم سیالکوٹ میں ہی حاصل کی اور مشن ہائی سکول سے میٹرک اور مرے کالج سیالکوٹ سے ایف اے کا امتحان پاس کیے۔ زمانہ طالبعلمی میں انھیں میر حسن جیسے استاد ملے جنہوں نے ان کی صلاحیتوں کو بھانپ لیا۔ اور ان کے اوصاف خیالات کے مطابق ان  کی صحیح رہنمائی کی۔ شعر و شاعری کا شوق بھی آپ کو یہیں پیدا ہوا۔ ایف اے کرنے کے بعد آپ اعلیٰ تعلیم کے لیے لاہور چلے گئے اور گورنمنٹ کالج لاہور سے بی اے اور ایم اے کے امتحانات پاس کیے یہاں آپ کو پروفیسرآرنلڈ جیسے فاضل شفیق استاد مل گئے جنہوں نے اپنے شاگرد کی رہنمائی میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی۔اقبال کو عربی اور فارسی سے طبعی مناسبت اجداد سے ورثے میں ملی تھی اس پر میر حسن جیسے فاضل استاد کی تربیت نے اسے نکھار دیا۔اقبال اپنے استاد سید میر حسن کا بڑا احترام کرتے تھے جیسا کہ وہ اپنے ایک شعر میں اپنے استاد کی خدمت میں ہدیہ عقیدت پیش کرتے ہوئے کہتے ہیں :
؎ مجھے اقبال اس سید کے گھر سے فیض پہنچا ہے
پلے جو ان کے دامن میں، وہی کچھ بن کے نکلے ہیں
حصولِ تعلم سے فراغت پا کر اقبال نے کچھ عرصہ اورینٹل کالج لاہور میں فلسفہ اور تاریخ کے مضامین پڑھائے، گورنمنٹ کالج لاہور میں فلسفہ اور انگریزی کی تعلیم بھی دیتے رہے ۔ ۱۹۰۵ء میں حالات سازگار دیکھ کر آپ اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے یورپ تشریف لے گئے اور کیمبرج یونیورسٹی میں داخلہ لے لیا اور پروفیسر براؤن جیسے فاضل اساتذہ سے رہنمائی حاصل کی ۔ بعد میں آپ جرمنی چلے گئے جہاں میونخ یونیورسٹی سے آپ نے فلسفہ میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔اس کے بعد آپ نے بار ایٹ لا ء کیا  اور کچھ عرصے تک لندن یونیورسٹی میں پروفیسر آرنلڈ کے  قائم مقام کی حیثیت سے عربی کے پروفیسر رہے ۔ ۱۹۱۰ء میں اقبال یورب سے وطن واپس آگئے اور کچھ عرصہ گورنمنٹ کالج میں پڑھانے کے بعد وکالت شروع کر دی۔ ۱۹۲۲ء میں حکومت نے آپ کی ادبی خدمات کو سراہتے ہوئے ”سر“ کا خطاب دیا۔۱۹۳۰ء  میں آپ نے مسلم لیگ کے صدر کی حیثیت سے الہٰ آباد کے اجلاس میں اپنا وہ  تاریخی خطبہ ارشاد فرمایا جس میں بر صغیر کے مسلمانوں کی مشکلات کا حل پاکستان کے قیام کی تجویز کی صورت میں پیش کیا گیا۔اردو کی فکری شاعری کی تاریخ میں اقبال کو ایک خاص مقام حاصل ہے وہ ناصرف اپنے عہد کے سب سے  بڑے  شاعر  ہیں بلکہ ایک  عصرِ نو کے معمار بھی ہیں۔ بانگِ درا ، بالِ جبریل، ضربِ کلیم، ارمغانِ حجاز کا نصف حصہ  اردو جبکہ اسرا رو رموز ، پیامِ مشرق ، زبورِ عجم، جاوید نامہ، پس چہ باید کرد اور ارمغانِ حجاز کا نصف حصہ  فارسی شعری مجموعے ہیں۔
طویل علالت کے بعد ۲۱ اپریل ۱۹۳۸ء کو اقبال اپنے خالقِ حقیقی سے جا ملے۔ ان کا مزار لاہور میں ہے۔
شاعری
اصنافِ شاعری کے لحاظ سے اقبال کا کلام غزل، مرثیہ،مثنوی ، مناظر فطرت ، رباعیات ، ظریفانہ و طنزیہ، قومی اور وطنی نظموں پر محیط ہے۔فطری طور پر انسان کے خیالات اور میلانات میں وقت اور ماحول کے ساتھ ساتھ تبدیلی رونما ہوتی ہے اور ان میں بتدریج  پختگی آتی ہے چناچہ اس لحاظ سے اقبال کی شاعری کو چار ادوار میں تقسیم کر سکتے ہیں ۔
اقبال ہماری زبان کا پہلا شاعر ہےجس نے ہمیں یہ سوچنے پر مجبور کیا کہ شاعر کا کوئی پیام بھی ہوا کرتا ہے۔ اس کا تعلق ہماری اجتماعی زندگی سے بھی ہوسکتا ہے۔ اقبال سے پہلے شاعری صرف نام تھا غزل گوئی کا جس میں صرف  حسن و عشق کے جذبات کا اظہار ہوتا تھا یا تصوف کے چند مخصوصات کا جن سے شاید شاعر خود بھی واقف نہ ہوتا تھا لیکن جب حالی ، اسماعیل اور محمد حسین آزاد میں نے قدیم غزل گوئی کا رنگ بدل کر اس میں زندگی کی بعض حقیقتوں کو بھی شامل کیا تو لوگوں کو معلوم ہوا کہ وصل و فراق کے جھگڑوں کے انسان کو اور بھی بہت کچھ سوچنا ہے  اور غزل گوئی کے اسی جدید مشرب کا ارتقا اکبر و اقبال کی شاعری تھی ۔ اقبال کی شاعری کا آغاز داغ کی شاگردی سے ہوتا ہے جو خود قدیم طرز کا غزل گو تھا ، لیکن اقبال نے ابتدا میں بھی کبھی داغ کی شاگردی کا حق ادا نہیں کیا اور بعد میں تو لوگوں کو خیر یہ بھی یاد نہیں رہا کہ داغ اور اقبال میں کبھی کوئی تعلق رہا ہے اقبال کی شاعری کو چار ادوار میں تقسیم کیا گیا ہے ۔ ایک وہ دور ہے جب ان کا کلام ”مخزن“ میں شایع ہوا کرتا تھا اور انجمنِ حمایت اسلام کے جلسوں میں وہ اپنے قوی مسدس پڑھا کرتے تھے ۔ اس وقت وہ غزلیں بھی کہتے تھے اور نظمیں بھی، لیکن ان کی غزلوں میں بھی ہم کو چونکا دینے والی باتیں نظرآتی تھیں  اور نظموں میں بھی زیادہ گرم و تیز چنگاریاں پائی جاتی تھیں۔
اقبال سے پہلے تغزل میں ہم کو اخلاقی مواعظ تو کہیں کہیں نظر آجاتے ہیں لیکن اجتماعی اور سیاسی اشارے بالکل مفقود تھے ۔ اس کی ابتدا اقبال نے کی  ، چناچہ ان کی ابتدائی غزلوں میں ہم کو اس قسم کی باتیں نظر آجاتی ہیں کہ :
رہنے دو خم کے منہ پرتم خشت کلیسا ابھی
ہم یہ نہیں کہ سکتے کہ اقبال کے سیاسی نظریے واقعی قابل تقلید بھی تھے ۔ اقبال کے پہلے دور کی شاعری حقیقتاً   محا کاتی یا نقاشانہ شاعری تھی، جو بعد کو زیادہ نمایاں ہوتی گئی،یہاں تک آرٹ کی جگہ سائنس نے لے لی اور اقبال کا سیاسی اور ایک مابہ الزاع مسئلہ بن گیا۔ اقبال کی شاعری کا پہلا دور ترانہ اور شکوہ پر ختم ہوتا ہے ۔ ترانہ تو خیر وطنی حیثیت سے نہیں ، قومی حیثیت سے مکمل چیز تھا بشرط کہ اس سے ” سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا“ نکال دیا جاتا لیکن شکوہ صرف ”جواب شکوہ“ لکھنے کے لیے لکھا گیا اور انہیں سے اقبال کی شاعری کا دوسرا دور شروع ہوتا ہے جب انہوں نے خودی کا نظریہ پیش کر کے خراج تحسین بھی حاصل کیا ۔ اور وہ ہدف ملامت بھی بنے ۔
خودی کا نظریہ کوئی نئی چیز نہیں تھا لیکن اقبال نے جس زمانہ اور رنگ میں اسے پیش کیا وہ ضرور چونکا دینے والا تھا۔ یعنی اقبال نے اسے ایک ایسے زمانے میں پیش کیا جب ملک کی غلامی اپنے انتہائی دور سے گزر رہی تھی اور انداز و اختیار کیا جس میں اد ب ، تصوف اور فلسفہ سب ملے جلے نظر آتے تھے اور اسی لیے وہ ہر جماعت میں غور سے سنا گیا۔۱۹۰۵ء سے جب وہ حصول تعلیم کے سلسلے میں ولایت گئے ، ان کی شاعری کا دوسرا دور شروع ہوا اور ۱۹۰۸ء تک قائم رہا جب وہ وطن واپس لائے قائم رہا۔ اس دوران میں ان کی شاعری میں فطری رنگ اور بھی نکھر آیا ۔ یورپ کے حسین مناظر نے ان کے دل پر بہت اثر کیا ۔ اس دور کی اکثر نظمیں انھی تاثرات کا نتیجہ ہیں مثلاً حقیقتِ حسن ، حسن و عشق ،چاند اور تارے، انسان ، ایک شام اور تنہائی وغیرہ فنی اعتبار سے لاجواب نظمیں ہیں۔ اس دور میں اقبال نے بہت کم نظمیں لکھیں اور ایک وقت ایسا بھی آیا کہ بقول سر عبدالقادر ، شاعری سے ہی دل براشتہ ہوگئے تھے کیونکہ وہ ایشیا کی شاعری کو یورپ کی شاعری کے مقابلے میں ہیچ سمجھتے تھے ۔ اگرچہ شاعری کے اردے کو تو انہوں نےترک کر دیا لیکن ان کی طبیعت میں تغیر پیدا ہوگیا کہ شاعری کی زبان بدل گئی یعنی اردو کی بجائے فارسی میں طبع آرمائی شروع کی اور ان کا زاویہ نگاہ بھی بدل گیا  تھا اور انہوں نے شاعر کی بجائے پیامبر کی حیثیت اختیار کر لی اور اسی ور میں ان کی لکھی گئی شاعری کی مثالیں درج ہیں:
؎                                           اوروں کا ہے پیام اور ، میرا پیام اور ہے
عشق کے درد مند کا طرزِ کلام اور ہے
موت ہے عیشِ جاوداں، ذوقِ طلب اگر نہ ہو
گردشِ آدمی ہے اور، گردشِ جام اور ہے


اقبال کی شاعری کے تیسرے دور میں  مذہبی اور سیاسی افکا ر کو بیان کیا گیا ہے ۔ انہوں نے اپنے ذہن میں انسان کا بلند تصور پیش کیا، اور اس کا نام انہوں نے مردِ مومن رکھا”جس کی نگاہ سے تقدیریں بدل جاتی ہیں“۔
اقبال کی شاعری کا تیسرا دور ان کی زندگی کے   آخری سولہ ، سترہ سالوں پر محیط ہے جس میں انہوں نے ملت کے رہنما ہونے کا حق ادا کیا اور مسلمانوں کو اپنی ہستی پہچاننے کے لیے کہا۔ اقبال ؒ نے یہ کیا کہ قوم کواتحاد اور وحدت ملی کادرس دیا۔ ان کے عظیم الشان کلام کا معتدبہ حصہ اتحاد ملی کا طویل درس ہے۔ حالی اور اکبرالہ آبادی نے اگرچہ اپنے مخصوص رنگ میں اس سے قبل بھی اتحاد کادرس دیا تھا لیکن اقبال ؒ کے کلام کا آہنگ اور لہجہ ایسا اثرا نگیز اور انقلاب آفریں تھا کہ منتشر قوم نے اتحاداور یگانگت کی ضرورت محسوس کرناشروع کردی ۔اقبالؒ نے اس الہام کو بھی الحاد سے تعبیر کیا جس میں وحدت و اتحا د کافقدان ہو۔
ہے زندہ فقط وحدت افکار سے ملت
وحدت ہو فنا جس سے وہ الہام بھی الحاد
۔۔۔۔۔
بتان رنگ وخوں کو توڑ کر ملت میں گم ہو جا
نہ تورانی رہے باقی، نہ ایرانی نہ افغانی
۔۔۔۔۔
اتحاد وحدت ملی کے لیے نصب العین، نظریہ حیات اور مشترک اقدار کی ضرورت تھی اس لیے اقبال نے اپنے کلام میں ایک ایک کرکے ان مشترک تہذیبی اور مذہبی مظاہر اور مشترکہ تاریخی اور ثقافتی اقدار کا ذکر کیا جو بحیثیت مسلمان ہمیں ورثے میں ملے تھے اور جنھوں نے تاریخ کے ایک دورمیں ہماری قوم کو قعرمذلت سے نکال کر اْوج ثریا پہ پہنچایاتھا۔ یہ اسلامی نظریہ حیات تھا جس کے اقبالؒ ساری زندگی نقیب رہے۔ اور جس کے باعث وہ نام نہاد ترقی پسند اور دین بیزار عناصر کی نظر میں رجعت پسند شاعر ٹھہرے ۔ اسلام اقبالؒ کی افکار کا نقطہ ماسکہ تھا۔ انھوں نے مشرق ومغر ب کے فلسفیانہ افکار کو کھنگالا اور اپنے وسیع مطالعے اور الہامی بصیرت کے ذریعے تمام نظریہ ہائے حیات پر اسلام کی فوقیت اورحقانیت کواس طرح واضح کیا کہ ذہنی طور پر شکست خوردہ مسلمانوںکو ایک بارپھر فخر محسوس ہونے لگا ۔حال آں کہ مغرب کی طویل غلامی نے اسلام کے متعلق شرمسارانہ طرز عمل روار رکھنے پرمجبورکر دیا تھا۔ اور ملت مسلمہ کاایک غالب عنصر اسلام سے قطعا ً بیزارہو چکا تھا۔ اقبال نے زوال ملت کا سبب اسلام سی رو گردانی قرار دیا ۔ اورملت کے تمام دکھوں اور قوم کی تمام بیماریوں کے علاج قرآن حکیم میں ڈھونڈا ۔اقبال ؒ نے قوم کو بتایا کہ وہی قومیں دنیا میں سربلندی و سر فرازی سے ہمکنا رہوتی ہیںجو اپنے نصب العین اور نظریہ حیات سے گہری وابستگی رکھتی ہیں۔ نظریہ اور نصب العین نہ ہو تو وہ تسبیح کی دانوں کی طرح بکھر کر رہ جاتی ہیں۔ اسی محکم رشتے کے ٹوٹنے سے پوری دنیا میںمسلمان اس وقت خوفناک انحطاط و انتشار کا شکار تھے۔ عملی طور پر ان کاوجود مٹ چکا تھا۔ اغیارکی غلامی ان کا مقدر بن چکی تھی ۔ اقبالؒ نے اپنی کلام میں دستور حیات سے وابستگی کا زور اور درس دیا ۔ ان کاسارا کلام اسی اصل کی طرف مراجعت کا حیات بخش پیغام ہے۔
؎زندہ فر دازارتباط جان و تن
زندہ قوم از حفظ ناموس کہن
مرگ فرد از خشکی رو د حیات
مرگ قوم از ترک مقصود حیات!
اقبال کی شاعری میں تصوف اور مذہب کا رحجان  اسلامی فرقہ پرستی کا نتیجہ نہیں ہے بلکہ اس کے پیچھے وہ محرکات ہیں جو آپ نے قیامِ یورپ کے دوران میں خود ملاحظہ کیے کہ اقوام مغرب کا مقصد اقوام مشرق کو بے دست و پا بنانے کے سوا کچھ نہیں
طلوعِ اسلام ”بانگِ درا “ کی آخری نظم ہے اور اس کےبعد اقبال نے اپنی ساری توجہ فارسی شاعری کی طرف رہی۔
بانگِ درا کی طباعت اول ۱۹۲۴ء میں ہوئی اور اس کی اشاعت کے بعد آپ نے اردو میں جو کچھ بھی لکھا وہ ان کی شاعری کا چوتھا دور ہے ۔ اب ان کے پاس ایک مکمل فکری نظام تھا اورخارجی دنیا کے مقابلے میں روحانی اور باطنی دنیا زیادہ اہم بن گئی  اور خودی کے تصورات محرکاتِ شااعری بنے ۔ بالِ جبریل اور ضربِ کلیم میں خودی کی گونج سنائی دیتی ہے۔


1 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔

آج کا شعر

دلوں میں فرق پڑ جائے تو اتنا یاد رکھنا تم

دلیلیں، منتیں ، سب فلسفے بیکار جاتے ہیں

Powered by Blogger.

آج کا شاعر

Faiz Ahmad Faiz