محبت مر چکی ہے اور اب نفرت کا موسم ہے
خدا کی بستیوں میں درد اور دہشت کا موسم ہے
لبوں کے کنج میں بوسوں کے آلوچے ہیں پژمردہ
دلوں میں ہجر کے آزار کی شدت کا موسم ہے
درندے چھپ گئے ہیں اوڑھ کر عشاق کی کھالیں
دیارِ شوق ہے ویران،اور وحشت کا موسم ہے
سنو! کوہ قاف سے یاجوج اور ماجوج اترے ہیں
جہانِ پیش گوئی میں عجب حیرت کا موسم ہے
جنودِ طالبانی کا یہ دینِ مدرسہ سوزی
یہ کس کذاب کے پیغام کی شہرت کا موسم ہے
ہوائے بے نوائی ملک بھر میں چلتی رہتی ہے
مگر باغِ حکومت میں بڑی عشرت کا موسم ہے
یہ ہیروں اور لیلائوں کے جھرمٹ آ گئے دیکھو
نگر میں عشق کی تبلیغ اور دعوت کا موسم ہے
چلو مسعود، اس کو جلوتوں سے آشنا کردیں
کہ اس کے آستاں پر رات کو خلوت کا موسم ہے
0 comments:
آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔