چاہا
تو بہت کچھ تھا یہاں پر نہیں بدلا
تصویر
بدلنے سے بھی منظر نہیں بدلا
خوف
آتا ہے اُمید ہی رستہ نہ بدل لے
جب
اتنی تباہی پہ بھی یہ گھر نہیں بدلا
ممکن
ہے کہ منزل کا تعین ہی غلط ہو
اب
تک تو مری راہ کا پتھر نہیں بدلا
تاریخ
تمھاری بھی گواہی کبھی دیتی
نیزہ
ہی بدل جاتا اگر سر نہیں بدلا
پیروں
میں زمیں، آسماں سر پر ہے ابھی تک
چادر
نہیں بدلی، مرا بستر نہیں بدلا
کیسے
ترے کہنے سے بدل جاؤں کہ اب تک
دریاؤں
کی خواہش پہ سمندر نہیں بدلا
سلیم
کوثر
0 comments:
آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔