Wednesday, February 20, 2013

آپ اپنا غبار تھے ہم تو (جون ایلیا)

0 comments

آپ اپنا غبار تھے ہم تو
یاد تھے یادگار تھے ہم تو

پردگی! ہم سے کیوں رکھا پردہ
تیرے ہی پردہ دار تھے ہم تو

وقت کی دھوپ میں تمہارے لیے
شجرِ سایہ دار تھے ہم تو

اُڑتے جاتے ہیں دھُول کے مانند
آندھیوں پر سوار تھے ہم تو

ہم نے کیوں خود پہ اعتبار کیا
سخت بے اعتبار تھے ہم تو

شرم ہے اپنی بار باری کی
بے سبب بار بار تھے ہم تو

کیوں ہمیں کر دیا گیا مجبور
خود ہی بے اختیار تھے ہم تو

تم نے کیسے بُھلا دیا ہم کو
تم سے ہی مستعار تھے ہم تو

خوش نہ آیا ہمیں جیے جانا
لمحے لمحے پہ بار تھے ہم تو

سہہ بھی لیتے ہمارے طعنوں کو
جانِ من جاں نثار تھے ہم تو

خود کو دورانِ حال میں اپنے
بے طرح ناگوار تھے ہم تو

تم نے ہم کو بھی کر دیا برباد
نادرِ روزگار تھے ہم تو

ہم کو یاروں نے یاد بھی نہ رکھا
جون یاروں کے یار تھے ہم تو

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔

آج کا شعر

دلوں میں فرق پڑ جائے تو اتنا یاد رکھنا تم

دلیلیں، منتیں ، سب فلسفے بیکار جاتے ہیں

Powered by Blogger.

آج کا شاعر

Faiz Ahmad Faiz