عزیز
اتنا ہی رکھو کہ جی سنبھل جائے
اب
اس قدر بھی نہ چاہو کہ دم نکل جائے
ملے
ہیں یوں تو بہت آؤ اب ملیں یوں بھی
کہ
روح گرمئ انفاس سے پگھل جائے
محبّتوں
میں عجب ہے دلوں کو دھڑکا سا
کہ
جانے کون کہاں راستہ بدل جائے
زہے
وہ دل جو تمنّائے تازہ تر میں رہے
خوشا
وہ عمر جو خوابوں ہی میں بہل جائے
میں وہ چراغِ سرِ راہ گزارِ دنیا ہوں
جو
اپنی ذات کی تنہائیوں میں جل جائے
ہر
ایک لحظہ، یہی آرزو، یہی حسرت
جو
آگ دل میں ہے وہ شعر میں بھی ڈھل جائے
0 comments:
آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔