Tuesday, February 26, 2013

آج یوں موج در موج غم تھم گیا اس طرح غم زدوں کو قرار آگیا(فیض احمد فیض)

0 comments

آج یوں موج در موج غم تھم گیا اس طرح غم زدوں کو قرار آگیا
جیسے خوشبوئے زلفِ بہار آ گئی جیسے پیغامِ دیدارِ یار آگیا

جس کی دید و طلب وہم سمجھے تھے ہم رُو بُرو پھر سرِ رہگزر آگیا
صبحِ فردا کو پھر دل ترسنے لگا، عمر  رفتہ ترا اعتبار آگیا

رُت بدلنے لگی رنگِ دل دیکھنا، رنگِ گلشن سے اب حال کھلتا نہیں
زخم چھلکا کوئی یا کوئی گُل کھِلا، اشک اُمڈے کہ ابرِ بہار آگیا

خونِ عُشاق سے جام بھرنے لگے، دل سُلگنے لگے، داغ جلنے لگے
محفلِ درد پھر رنگ پر آ گئی، پھر شبِ آرزو پر نکھار آگیا

سر فروشی کے انداز بدلے گئے، دعوتِ قتل پر مقتل شہر میں
ڈال کر کوئی گردن میں طوق آگیا، لاد کر کوئی کاندھے پہ دار آگیا

فیض کیا جانئے یار کس آس پر، منتظر ہیں کہ لائے گا کوئی خبر
میکشوں پر ہُوا محتسب مہرباں، دل فگاروں پہ قاتل کو پیار آگیا

Friday, February 22, 2013

غزل از عبید اللہ علیم

0 comments

عزیز اتنا ہی رکھو کہ جی سنبھل جائے
اب اس قدر بھی نہ چاہو کہ دم نکل جائے

ملے ہیں یوں تو بہت آؤ اب ملیں یوں بھی
کہ روح گرمئ انفاس سے پگھل جائے

محبّتوں میں عجب ہے دلوں کو دھڑکا سا
کہ جانے کون کہاں ‌راستہ بدل جائے

زہے وہ دل جو تمنّائے تازہ تر میں رہے
خوشا وہ عمر جو خوابوں ہی میں بہل جائے

 میں وہ چراغِ سرِ راہ گزارِ دنیا ہوں
جو اپنی ذات کی تنہائیوں میں جل جائے

ہر ایک لحظہ، یہی آرزو، یہی حسرت
جو آگ دل میں ہے وہ شعر میں بھی ڈھل جائے

زندگی سے ڈرتے ہو؟ - از ن م راشد

0 comments

زندگی سے ڈرتے ہو؟
زندگی تو تم بھی ہو، زندگی تو ہم بھی ہیں!
آدمی سے ڈرتے ہو؟
آدمی تو تم بھی ہو، آدمی تو ہم بھی ہیں!

آدمی زباں بھی ہے، آدمی بیاں بھی ہے،
اس سے تم نہیں ڈرتے!
حرف اور معنی کے رشتہ ہائے آہن سے، آدمی ہے وابستہ
آدمی کے دامن سے زندگی ہے وابستہ
اس سے تم نہیں ڈرتے!
ان کہی‘سے ڈرتے ہو
جو ابھی نہیں آئی، اُس گھڑی سے ڈرتے ہو
آس گھڑی کی آمد کی آگہی سے ڈرتے ہو!

پہلے بھی تو گزرے ہیں،
دور نارسائی کے، ’بے ریا‘ خدائی کے
پھر بھی یہ سمجھتے ہو، ہیچ آرزو مندی
یہ شبِ زباں بندی، ہے رہِ خدا وندی
تم مگر یہ کیا جانو،
لب اگر نہیں ہلتے، ہاتھ جاگ اُٹھتے ہیں
ہاتھ جاگ اُٹھتے ہیں، راہ کا نشاں بن کر
نور کی زباں بن کر
ہاتھ بول اُٹھتے ہیں، صبح کی اذاں بن کر
روشنی سے ڈرتے ہو؟
روشنی تو تم بھی ہو، روشنی تو ہم بھی ہیں،
روشنی سے ڈرتے ہو

شہر کی فصیلوں پر
دیو کا جو سایہ تھا پاک ہو گیا آخر
رات کا لبادہ بھی
چاک ہو گیا آخر
اژدہامِ انساں سے فرد کی نوا آئی
زات کی صدا آئی
راہِ شوق میں جیسے راہرو کا خوں لپکے
اک نیا جنوں لپکے
آدمی چھلک آٹھے
آدمی ہنسے دیکھو، شہر پھر بسے دیکھو
تم ابھی سے ڈرتے ہو؟
ہاں ابھی تو تم بھی ہو، ہاں ابھی تو ہم بھی ہیں،
تم ابھی سے ڈرتے ہو!

Wednesday, February 20, 2013

آپ اپنا غبار تھے ہم تو (جون ایلیا)

0 comments

آپ اپنا غبار تھے ہم تو
یاد تھے یادگار تھے ہم تو

پردگی! ہم سے کیوں رکھا پردہ
تیرے ہی پردہ دار تھے ہم تو

وقت کی دھوپ میں تمہارے لیے
شجرِ سایہ دار تھے ہم تو

اُڑتے جاتے ہیں دھُول کے مانند
آندھیوں پر سوار تھے ہم تو

ہم نے کیوں خود پہ اعتبار کیا
سخت بے اعتبار تھے ہم تو

شرم ہے اپنی بار باری کی
بے سبب بار بار تھے ہم تو

کیوں ہمیں کر دیا گیا مجبور
خود ہی بے اختیار تھے ہم تو

تم نے کیسے بُھلا دیا ہم کو
تم سے ہی مستعار تھے ہم تو

خوش نہ آیا ہمیں جیے جانا
لمحے لمحے پہ بار تھے ہم تو

سہہ بھی لیتے ہمارے طعنوں کو
جانِ من جاں نثار تھے ہم تو

خود کو دورانِ حال میں اپنے
بے طرح ناگوار تھے ہم تو

تم نے ہم کو بھی کر دیا برباد
نادرِ روزگار تھے ہم تو

ہم کو یاروں نے یاد بھی نہ رکھا
جون یاروں کے یار تھے ہم تو

چاہا تو بہت کچھ تھا یہاں پر نہیں بدلا (سلیم کوثر)

0 comments


چاہا تو بہت کچھ تھا یہاں پر نہیں بدلا
تصویر بدلنے سے بھی منظر نہیں بدلا

خوف آتا ہے اُمید ہی رستہ نہ بدل لے
جب اتنی تباہی پہ بھی یہ گھر نہیں بدلا

ممکن ہے کہ منزل کا تعین ہی غلط ہو
اب تک تو مری راہ کا پتھر نہیں بدلا

تاریخ تمھاری بھی گواہی کبھی دیتی
نیزہ ہی بدل جاتا اگر سر نہیں بدلا

پیروں میں زمیں، آسماں سر پر ہے ابھی تک
چادر نہیں بدلی، مرا بستر نہیں بدلا

کیسے ترے کہنے سے بدل جاؤں کہ اب تک
دریاؤں کی خواہش پہ سمندر نہیں بدلا

سلیم کوثر

دل تجھے ناز ہے جس شخص کی دلداری پر(سلیم کوثر)

0 comments


دل تجھے ناز ہے جس شخص کی دلداری پر
دیکھ اب وہ بھی اُتر آیا اداکاری پر

میں نے دشمن کو جگایا تو بہت تھا لیکن
احتجاجاً نہیں جاگا مری بیداری پر

آدمی، آدمی کو کھائے چلا جاتا ہے
کچھ تو تحقیق کرو اس نئی بیماری پر

کبھی اِس جرم پہ سر کاٹ دئے جاتے تھے
اب تو انعام دیا جاتا ہے غدّاری پر

تیری قربت کا نشہ ٹوٹ رہا ہے مجھ میں
اس قدر سہل نہ ہو تو مری دشواری پر

مجھ میں یوں تازہ ملاقات کے موسم جاگے
آئینہ ہنسنے لگا ہے مری تیاری پر

کوئی دیکھے بھرے بازار کی ویرانی کو
کچھ نہ کچھ مفت ہے ہر شے کی خریداری پر

بس یہی وقت ہے سچ منہ سے نکل جانے دو
لوگ اُتر آئے ہیں ظالم کی طرف داری پر

سلیم کوثر

لذتِ ہجر لے گئی، وصل کے خواب لے گئی(سلیم کوثر)

0 comments

لذتِ ہجر لے گئی، وصل کے خواب لے گئی
قرض تھی یادِ رفتگاں، رات حساب لے گئی

جامِ سفال پر مری کتنی گرفت تھی مگر
آب و ہوا ئے روز و شب، خانہ خراب، لے گئی

صحبتِ ہجر میں گھری جُنبشِ چشمِ سُرمگیں
خُود ہی سوال کر گئی ،خُود ہی جواب لے گئی

تِشنہ خرامِ عشق پر ابَر کے سائے تھے مگر
عرصۂ بےگیاہ تک چشمکِ آب لے گئی

کارِ جہاں سے رُوٹھ کر پھر تری یاد کی ہوس
شاخِ نہالِ زخم سے بُوئے گُلاب لے گئی

پہلے ہوا کے زِیرو بم ہم کو قریب کر گئے
پھر ہمیں ساحلوں سے دُور، یورشِ آب لے گئی

موجۂ وقت سے نڈھال ڈُوب رہے ہیں خدّو خال
ساعتِ حیلہ جُو سلیم عہدِ شباب لے گئی

سلیم کوثر

وہی قصے ہیں وہی بات پرانی اپنی (محسن نقوی)

0 comments


وہی قصے ہیں وہی بات پرانی اپنی
کون سنتا ہے بھلا رام کہانی اپنی

ہر ستمگر کو یہ ہمدرد سمجھ لیتی ہے
کتنی خوش فہم ہے کمبخت جوانی اپنی

روز ملتے ہیں دریچے میں نئے پھول کھلے
چھوڑ جاتا ہے کوئی روز نشانی اپنی

تجھ سے بچھڑے ہیں تو پایا ہے بیاباں کا سکوت
ورنہ دریاؤں سے ملتی تھی روانی اپنی

قحطِ پندار کا موسم ہے سنہرے لوگو
کچھ تیز کرو اب کے گرانی اپنی

دشمنوں سے ہی اب غمِ دل کا مداوا مانگیں
دوستوں نے تو کوئی بات نہ مانی اپنی

آج پھر چاند افق پر نہیں ابھرا محسن
آج پھر رات نہ گزرے گی سہانی اپنی

محسن نقوی

محبت کی طبیعت میں (امجد اسلام امجد)

0 comments

محبت کی طبیعت میں
یہ کیسا بچپنا قدرت نے رکھا ہے
کہ یہ جتنی پرانی جتنی بھی مضبوط ہو جائے
اِسے تائیدِ تازہ کی ضرورت پھر بھی رہتی ہے
یقیں کی آخری حد تک دلوں میں لہلہاتی ہو
ہزاروں طرح کے دلکش حسیں ہالے بناتی ہو
اسے اظہار کے لفظوں کی حاجت پھر بھی رہتی ہے
محبت مانگتی ہے یُوں گواہی اپنے ہونے کی
کہ جیسے طفلِ سادہ شام کو اِک بیج بوئے
اور شب میں اُٹھے
زمیں کو کھود کر دیکھے
کہ پودا اب کہاں تک ہے؟؟؟
محبت کی طبیعت میں عجب تکرار کی خَو ہے
کہ یہ اقرار کے لفظوں کو سننے سے نہیں تھکتی
بچھڑنے کی گھڑی ہو یا کوئی ملنے کی ساعت ہو
اسے بس ایک ہی دھن ہے
کہو مجھ سے محبت ہے
کہو مجھ سے محبت ہے
تمھیں مجھ سے محبت ہے
سمندر سے کہیں گہری
ستاروں سے سوا روشن
ہواؤں کی طرح دائم
پہاڑوں کی طرح قائم
کچھ ایسی بے سکونی ہے وفا کی سرزمینوں میں
کہ جو اہلِ محبت کو سدا بے چین رکھتی ہے
کہ جیسے پھول میں خوشبو کہ جیسے ہاتھ میں تارا
کہ جیسے شام کا تارا
محبت کرنے والوں کی سحر راتوں میں رہتی ہے
گُمنام کے شاخوں میں آشیانہ بناتی ہے اُلفت کا
یہ عین وصال میں بھی ہجر کے خدشوں میں رہتی ہے
محبت کے مسافر زندگی جب کاٹ چکتے ہیں
تھکن کی کرچیاں چنتے وفا کی اجرکیں پہنے
سمے کی راہ گزر کی آخری سرحد پہ رُکتے ہیں
تو کوئی ڈوبتی سانسوں کی ڈوری تھام کر
دھیرے سے کہتا ہے
کہ یہ سچ ہے نا
ہماری زندگی اک دوسرے کے نام لکھی تھی
دُھندلکا سا جو آنکھوں کے قریب و دُور پھیلا ہے
اسی کا نام چاہت ہے
تمھیں مجھ سے محبت ہے
تمھیں مجھ سے محبت ہے
امجد اسلام امجد“

آنکھوں کا رنگ ، بات کا لہجہ بدل گیا(امجد اسلام امجد)

0 comments

آنکھوں کا رنگ ، بات کا لہجہ بدل گیا
وہ شخص ایک شام میں کتنا بدل گیا
کچھ دن تو میرا عکس رہا آئینے پہ نقش
پھر یوں ہوا کہ خود مرا چہرہ بدل گیا
جب اپنے اپنے حال پہ ہم تم نہ رہ سکے
تو کیا ہوا جو ہم سے زمانہ بدل گیا
قدموں تلے جو ریت بچھی تھی وہ چل پڑی
اس نے چھڑایا ہاتھ تو صحرا بدل گیا
کوئی بھی چیز اپنی جگہ پر نہیں رہی!
جاتے ہی ایک شخص کے، کیا کیا بدل گیا
اک سرخوشی کی موج نے کیسا کیا کمال
وہ بے نیاز، سارے کا سارا بدل گیا
اٹھ کر چلا گیا کوئی وقفے کے درمیاں
پردہ اٹھا تو سارا تماشہ بدل گیا
حیرت سے سارے لفظ اسے دیکھتے رہے
باتوں میں اپنی بات کو کیسا بدل گیا
کہنے کو ایک صحن میں دیوار ہی بنی
گھر کی فضا، مکان کا نقشہ بدل گیا
شاید وفا کے کھیل سے اکتا گیا تھا وہ
منزل کے پاس آ کے جو رستہ بدل گیا
قائم کسی بھی حال پہ دنیا نہیں رہی
تعبیر کھو گئی، کبھی سپنا بدل گیا
منظر کا رنگ اصل میں سایا تھا رنگ کا
جس نے اسے جدھر سے بھی دیکھا، بدل گیا
اندر کے موسموں کی خبر اس کو ہوگئی
اس نوبہار ناز کا چہرہ بدل گیا
آنکھوں میں جتنے اشک تھے، جگنو سے بن گئے
وہ مسکرایا اور مری دنیا بدل گیا
اپنی گلی میں اپنا ہی گھرڈھونڈتے ہیں لوگ
امجد یہ کون شہر کا نقشہ بدل گیا

کچھ عشق تھا کچھ مجبوری تھی سو میں نے جیون وار دیا(عبید اللہ علیم)

0 comments

کچھ عشق تھا کچھ مجبوری تھی سو میں نے جیون وار دیا
میں کیسا زندہ آدمی تھا اک شخص نے مجھ کو مار دیا

ایک سبز شاخ گلاب کی تھی اک دنیا اپنے خواب کی تھی
وہ ایک بہار جو آئی نہیں اس کے لئے سب کچھ ہار دیا

یہ سجا سجایا گھر ساتھی مری ذات نہیں مرا حال نہیں
اے کاش کبھی تم جان سکو اس سکھ نے جو آزار دیا

میں کھلی ہوئی اک سچائی مجھے جاننے والے جانتے ہیں
میں نے کن لوگوں سے نفرت کی اور کن لوگوں کو پیار دیا

وہ عشق بہت مشکل تھا مگر آسان نہ تھا یوں جینا بھی
اس عشق نے زندہ رہنے کا مجھے ظرف دیا پندار دیا

(عبید اللہ علیم)

آپس میں بات چیت کی زحمت کئے بغیر(اعتبار ساجد)

0 comments

آپس میں بات چیت کی زحمت کئے بغیر
بس چل رہے ہیں ساتھ، شکایت کئے بغیر

آنکھوں سے کر رہے ہیں بیاں اپنی کیفیت
ہونٹوں سے حالِ دل کی وضاحت کئے بغیر

دونوں کو اپنی اپنی انائیں عزیز ہیں
لیکن کسی کو نذرِ ملامت کئے بغیر

ٹھہرا ہوا ہے وقت مراسم کے درمیاں
پیدا خلیج میں کوئی وسعت کئے بغیر

حیران ہیں کہ اتنے برس کیسے کٹ گئے
رسمی سا کوئی عہدِ رفاقت کئے بغیر

وہ جا نہیں چکا ہے مگر اس کے باوجود
تنہا کھڑے ہیں ہم اُسے رخصت کئے بغیر

چارہ گروں سے دونوں کو پڑتا ہے واسطہ
لیکن کِسی کے حق میں خیانت کئے بغیر

اعتبار ساجد

Quotations Facebook Covers :)

0 comments

































آج کا شعر

دلوں میں فرق پڑ جائے تو اتنا یاد رکھنا تم

دلیلیں، منتیں ، سب فلسفے بیکار جاتے ہیں

Powered by Blogger.

آج کا شاعر

Faiz Ahmad Faiz