Thursday, June 7, 2012

بلاگ کی کہانی

0 comments
بلاگنگ کا شوق مجھے بہت پہلے سے تھا لیکن استعمال سے اتنی اچھی طرح آگاہ نہ تھی آہستہ آہستہ کچھ کچھ سمجھ آنے لگا تو لکھنا شروع کردیا۔ بلاگ کا عنوان سوچا لیکن سمجھ کچھ نہ آیا کبھی قلم کا قاف رکھا تو کبھی محبت گمشدہ میری، ابھی کچھ دن پہلے پروین شاکر کے پارے میں ایک مضمون لکھتے ہوئے ان کے کالم نظر سے گزرے عنوان تھا”گوشئہ چشم“ تب سے پروین جی کی محبت میں اسی نام کو عنوان بنا ڈالا۔

Wednesday, June 6, 2012

0 comments
ہم کچھ اس ڈھب سے ترے گھر کا پتا دیتے ہیں
خضر بھی آئے تو گمراہ بنا دیتے ہیں

کس قدر محسن و ہمدرد ہیں احباب مرے
جب بھی میں ہوش میں آتا ہوں ، پلا دیتے ہیں

حادثہ کوئی خدا نے بھی کیا ہے پیدا؟
حادثے تو فقط انسان بنا دیتے ہیں

یاد بچھڑے ہوئے ایام کی یوں آتی ہے
جس طرح دور سے معشوق صدا دیتے ہیں

ہم کو شاہوں سے عدالت کی توقع تو نہیں
آپ کہتے ہیں تو زنجیر ہلا دیتے ہیں

دل اسی زہر کی لذت سے سلامت ہے عدم
ہم حسینوں کی جفاؤں کو دعا دیتے ہیں
0 comments
مطلب معاملات کا ، کچھ پا گیا ہوں میں
ہنس کر فریبِ چشمِ کرم کھا گیا ہوں میں

بس انتہا ہے چھوڑئیے بس رہنے دیجئے
خود اپنے اعتماد سے شرما گیا ہوں میں

شاید مجھے نکال کے پچھتا رہے ہوں آپ
محفل میں اس خیال سے پھر آگیا ہوںمیں

نکلا تھا میکدے سے کہ اب گھر چلوں عدم
گھبرا کے سوئے میکدہ پھر آگیا ہوں میں
0 comments
یوں جستجوئے یار میں آنکھوں کے بل گئے
ہم کوئے یار سے بھی کچھ آگے نکل گئے

واقف تھے تیری چشمِ تغافل پسند سے
وہ رنگ جو بہار کے سانچے میں ڈھل گئے

اے شمع! اُن پتنگوں کی تجھ کو کہاں خبر
جو اپنے اشتیاق کی گرمی سے جل گئے

وہ بھی تو زندگی کے ارادوں میں تھے شریک
جو حادثات تیری مروّت سے ٹل گئے

جب بھی وہ مسکرا کے ملے ہم سے اے عدم
دونوں جہان فرطِ رقابت سے جل گئے
0 comments
کہرا کے جھوم جھوم کے لا ، مسکرا کے لا
پھولوں کے رس میں چاند کی کرنیں ملا کے لا

کہتے ہیں عمرِ رفتہ کبھی لوٹتی نہیں
جا میکدے سے میری جوانی اٹھا کے لا

دیکھی نہیں ہے تو نے کبھی زندگی کی لہر
اچھا تو جا عدم کی صراحی اٹھا کے لا
0 comments
غموں کی رات بڑی بے کلی سے گزری ہے
گزر گئی ہے مگر جاں کئی سے گزری ہے

مسیح و خضر کی عمریں نثار ہوں اس پر
وہ زندگی کی گھڑی جو خوشی سے گزری ہے

خزاں تو خیر خزاں ہے ، ہمارے گلشن سے
بہار بھی بڑی آزردگی سے گزری ہے

گزر تو خیر گئی ہے عدم حیات مگر
ستم ظریف بڑی بے رُخی سے گزری ہے
0 comments
جو تیرے فقیر ہوتے ہیں
آدمی بے نظیر ہوتے ہیں

تیری محفل میں بیٹھنے والے
کتنے روشن ضمیر ہوتے ہیں

پھول دامن میں چند رکھ لیجئے
راستے میں فقیر ہوتے ہیں

زندگی کے حسین ترکش میں
کتنے بے رحم تیر ہوتے ہیں

وہ پرندے جو آنکھ رکھتے ہیں
سب سے پہلے اسیر ہوتے ہیں

اے عدم احتیاط لوگوں سے
لوگ منکر نکیر ہوتے ہیں

زُلفِ برہم سنبھال کر چلئے

0 comments
زُلفِ برہم سنبھال کر چلئے
راستہ دیکھ بھال کر چلئے

موسمِ گل ہے ، اپنی بانہوں کو
میری بانہوں میں ڈال کر چلئے

کچھ نہ دیں گے تو کیا زیاں ہوگا
حرج کیا ہے سوال کر چلئے

یا دوپٹہ نہ لیجئے سر پر
یا دوپٹہ سنبھال کر چلئے

یار دوزخ میں ہیں مقیم عدم
خُلد سے انتقال کر چلئے
0 comments
وہ باتیں تیری وہ فسانے ترے
شگفتہ شگفتہ بہانے ترے

بس اک داغ ِ سجدہ میری کائنات
جبینیں تیری ، آستانے ترے

بس اک زخمِ نظارہ حصہ میرا
بہاریں تری آشیانے ترے

فقیروں کا جھمگھٹ گھڑی دو گھڑی
شرابیں تری بادہ خانے ترے

ضمیر صدف میں کرن کا مقام
انوکھے انوکھے ٹھکانے ترے

بہار و خزاں کم نگاہوں کے وہم
برے یا بھلے سب زمانے ترے

فقیروں کی جھولی نہ ہوگی تہی
ہیں بھر پور جب تک خزانے ترے

عدم بھی ہے تیرا حکایت کدہ
کہاں تک گئے ہیں فسانے تیرے

عبدالحمید عدم

Saturday, June 2, 2012

متفرق اشعار (Two line poetry)

0 comments


مدت میں شامِ وصل ہوئی ہے مُجھے نصیب
دو چار سو برس تو______ الہٰی سحر نہ ہو
٭٭٭٭
وہ روز آتے ہیں، ملتے ہیں،حال پوچھتے ہیں
یہ اور بات کہ دل کو قرار یوں بھی نہیں
٭٭٭٭
لیلیٰ ترے صحراوں میں محشر ہیں ابھی تک
اور بخت میں ہر قیس کے پتھر ہیں ابھی تک
٭٭٭٭
بچھڑ کے تجھ سے چلے ہم تو اب کے یوں بھی ہوا
کہ تیری یاد کہیں راستوں میں چھوڑ آئے
٭٭٭٭
کہتے ہیں لوگ تجھ کو مسیحا مگر یہاں۔۔۔
اک شخص مر گیا ہے تجھے دیکھنے کے بعد
٭٭٭٭
تو مطمئن نہیں تو مجھے کب ہے اعتراض
مٹی کو پھر سے گوندھ میری، پھر بنا مجھے
٭٭٭٭
نظر عذاب ہے اب پاؤں میں ہو اگر زنجیر
فضا کے رنگ کو دیکھوں کہ بال و پر دیکھوں
٭٭٭٭


نا معلوم کیا سازش ہے دل کی
کہ خود ہی مات کھائی جا رہی ہے
ہے ویرانی کی دھوپ اور ایک آنگن
اور اس پر لُو چلائی جا رہی ہے
٭٭٭
محرومیوں کے دور میں کن حسرتوں کے ساتھ
ہم پتھروں کے دل میں خدا ڈھونڈتے رہے
٭٭٭٭
کل بزرگوں کے اثاثے کی جو تقسیم ہوئی
مال و زر چھوڑ دیا میں نے ، قناعت رکھ لی
٭٭٭٭
انہی قدموں نے تمھارے انہی قدموں کی قسم
خاک میں اتنے ملائے ہیں کہ جی جانتا ہے
٭٭٭٭
شہرِ خوبی کو خوب دیکھا میرؔ
جنسِ دل کا کہیں رواج نہیں
٭٭٭٭
ساغر سکون دے گئی ____ دل کی کسک ہمیں
اکثر خوشی کی بات سے رنجور ہو گئے۔۔
٭٭٭
نیندوں کے بغاوت سے یہ نقصان ہوا ہے
اک شخص کے خوابوں کو ترستی رہیں آنکھیں
٭٭٭٭
رسوا کرے گی یہ جو نمی چشم تر میں ہے
اشک پی جاؤ بات ابھی گھر کی گھر میں ہے
نقش فریادی ہے کس کی شوخیِ تحریر کا
کاغذی ہے پیرہن، ہر پیکرتصویر کا
٭٭٭٭
میرے اک گوشہ فکر میں میری زندگی سے عزیز تر
میرا اک ایسا بھی دوست ہے جو کبھی ملا نہ جدا ہوا
٭٭٭٭
دیکھنا بھی تو انہیں دور سے دیکھا کرنا
شیوہ عشق نہیں حسن کو رسوا کرنا
٭٭٭٭
ہم دوھری اذیّت کے گرفتار مسافر
پاؤں بھی ہیں شل، شوقِ سفر بھی نہیں جاتا
٭٭٭٭
  
احباب دور اندیش ہیں بھولے نہیں
جب بولنے کا وقت تھا بولے نہیں
٭٭٭٭
زندگی بھر کی شناسائی چلی جاۓ گی
گھر بسا لوں گا تو تنہائی چلی جاۓ گی
٭٭٭٭
برنگ شعلہ غم عشق ہم سے روشن ہے
کہ بے قراری کو____ ہم برقرار رکھتے ہیں
٭٭٭٭





تمہاری بھول ہے پیارے کہ اِس کو مار دوگے تُم
محبت وہ بَلا ہے جو خِضر کی گود کھیلی ہے
٭٭٭٭
اک لمحے کو مرے پاس آؤ
اور لمحے کی آنکھ لگ جائے
٭٭٭٭

کسے پکار رہا تھا وہ ڈوبتا ہوا دن

صدا تو آئی تھی، لیکن کوئی دہائی نہ تھی

کہ دھوپ چھاؤں کا عالم رہا، جدائی نہ تھی

وہ ہمسفر تھا مگر اُس سے ہمنوائی نہ تھی
٭٭٭٭
چمکتا ہے ہمارے نام کا تارا جہاں
نہ جانے کس افق کے پار ہے وہ کہکشاں
٭٭٭٭
میں آج تک بھولا نہیں آداب- جوانی ....
میں آج تک کسی کو نصیحت نہیں کرتا
٭٭٭٭
ذکر_اغیار سے ھوا معلوم
حرف_ناصح برا نہیں ھوتا.
٭٭٭٭

ناوک انداز جدھر دیدۂ جاناں ہوں گے
نیم بسمل کئی ہوں گے، کئی بے جاں ہوں گے

سنگ اور ہاتھ وہی، وہ ہی سر و داغِ جنوں
وہی ہم ہوں گے، وہی دشت و بیاباں ہوں گے
٭٭٭٭

یہ ہے تعمیرِ دنیا کا زمانہ
حویلی دل کی ڈھائی جا رہی ہے
٭٭٭٭

لوگ کہتے ھیں محبت میں اثر ھوتا ھے
کون سے شہر میں ھوتا ھے کدھر ھوتاھے
٭٭٭٭

نہ گئی تیری بے رخی نہ گئی
ہم تری آرزو بھی کھو بیٹھے
٭٭٭٭

لمحاتِ مسرت ھیں تصور سے گریزاں
یاد آئے ھیں جب بھی غم و آلام ھی آئے
٭٭٭٭

اے دل کوئی نہیں
کوئی نہیں ، کوئی نہیں
دروازہ فقط تیز ہوا سے کھلا تھا
٭٭٭٭

جگر ہو جائیگا چھلنی یہ آنکھیں خون روئیں گی

وصی بے فیض لوگوں سے نبھا کر کچھ نہیں ملتا
٭٭٭٭

تو پری شیشے سے نازک ہے نہ کر دعویِ مہر
دل ہیں پتھر کے انہوں کے جو وفا کرتے ہیں

تجھ بن اس جانِ مصیبت زدہ عمدیدہ پہ ہم
کچھ نہیں کرتے تو افسوس کیا کرتے ہیں

آج کا شعر

دلوں میں فرق پڑ جائے تو اتنا یاد رکھنا تم

دلیلیں، منتیں ، سب فلسفے بیکار جاتے ہیں

Powered by Blogger.

آج کا شاعر

Faiz Ahmad Faiz