ادبی دنیا میں ممتاز مفتی کو میں نے ''علی پور کا ایلی'' کے
مصنف کے طور سے جانا اور پھر شاید میں اس کے بعد مفتی کی کوئی اور تصنیف
پڑھنے کے قابل نہیں رہی۔ علی پور کا ایلی'' کے سحر سے ہی نہیں نکل پائی حیر کچھ دن پہلے ان کی ''تلاش'' پڑھی تو اس میں
ایک پیراگراف
نے مجھے رکنے ،سوچنے پر مجبور کر دیا تو میں نے سوچا پھر کیوں نہ اس کاپنے قارئین سے
شئیر کروں۔
تلاش از ممتاز مفتی سے اقتباس:
”یہ
عظیم حقیقت مجھے میرے بیٹے نے سکھائی تھی۔جب وہ بیس سال کا ہوا تو ایک روز وہ میرے
پاس آیا اور کہنے لگا۔ بابا ! میں تجھ سے
ایک بات کرنا چاہتا ہوں ۔ میں نے کہا پوچھتا
کیوں ہے شوق سے بات کر۔جو بھی کہنا چاہتا ہے کہ،تجھ پر کوئی بندش نہیں ہے ۔کہنے لگا،بابا
! بیس سال تک میں نے اپنی زندگی آپ کے خیالات کے مطابق گزاری ہے۔اب مجھے اجازت دیجئے
کہ باقی زندگی میں اپنے خیالات کے مطابق گزار لوں۔اس کی یہ بات سن کر ایک دھماکہ ہوا۔مجھے
یوں لگا جیسے صور پھونک دیا گیا ہو ۔میرے پرخچے اڑ گئے۔لیکن آپ یہ بات نہیں سمجھیں
گے جب تک میں آپ کو باپ بیٹے کی کہانی نہ سنا دوں۔
جب
عکسی چار سال کا ہوا تو اس کی والدہ فوت ہو گئی اور ہم باپ بیٹا اکیلے رہ گئے۔ان دنوں
میں سکول ماسٹر تھا۔سکول جاتا تو عکسی کو انگلی لگا کر ساتھ لے جاتا ۔جب تک میں پڑھاتا
رہتا،عکسی دیوار سے لگ کر کھڑا رہتا۔بازار جاتا تو اسے ساتھ لے جاتا ۔ہم دونوں اکیلے
رہنے پہ مجبور تھے۔کوئی ہمارا ساتھ دینے کے لئے تیار نہ تھا،عکسی کو علم نہ تھا کہ
یہ باپ کے مکافات عمل کا نتیجہ ہے،باپ نے جوانی میں کانٹے بوئے تھے ۔بیٹا لہو لہان
ہو رہا تھا ۔ہمارا کوئی والی وارث نہ تھا،رشتہ دار نہ عزیز ۔ہم اکٹھے رہتے تھے،اکٹھے
سوتے تھے،اکٹھے باتھ روم جاتے تھے۔ہم باپ بیٹا نہ تھے دو ساتھی تھے۔
پھر
عکسی بڑا ہو گیا اور میرا تبادلہ کراچی ہو گیا۔ وہاں میرا ایک دوست تھا قیصر ۔قیصر
میرا بھانجہ بھی تھا اور دوست بھی ۔بھانجہ کم کم اور دوست زیادہ ۔قیصر لنڈورا تھا
۔دو سال اس نے ہمیں بھی لنڈورا بنائے رکھا ۔سارا دن ہم کراچی میں آوارہ گردی کرتے
۔بازاروں میں چلتے پھرتے۔گنڈیریاں چوستے ۔سٹالوں پر کھڑے ہو کر کباب کھاتے۔کافی ہاؤس
میں پیالے پر پیالہ انڈیلتے اور پھر شام پڑتی تو کسی سنیما ہاؤس میں فلم دیکھتے۔روز
بلا ناغہ۔یہ ساری عیاشی قیصر کی وجہ سے تھی،میں تو قلاش تھا۔وہ امریکی دفتر میں افسر
تھا ۔
کوئی
ہمیں دیکھ کر نہ جان سکتا تھا کی تینوں میں ایک باپ اور ایک ماموں ہے،ایک بھانجہ ہے
ایک بیٹا ہے۔میں خود پر بڑا خوش تھا،میں خود کو شاباش دیتا تھا۔ میں سمجھتا تھا میں
سمجھتا تھا کہ میں وہ باپ ہوں جس نے اپنے اور اپنے بیٹے کے درمیان کوئی احترام کی دیوار
حائل ہونے نہیں دی۔ جس نے بیٹے پر حکم نہیں چلایا ۔اسے کوئی نصیحت نہیں کی۔"من
نہ کردم شمار حذر بکنید"قسم کی نصیحت ۔ میں وہ باپ ہوں جس نے بیٹے کو دوست بنائے
رکھا ۔میں دل ہی دل میں کہتا تھا،لوگو ! میرے گلے میں ہار ڈالو ،مجھے ایوارڈ دو،میں
وکٹوریہ کراس قسپ کے ایوارڈ کا مستحق ہوں ۔ان خیالات میں جب مجھے میرے بیٹے نے کہا
کہ بابا ! بیس سال میں نے تیرے خیالات کے مطابق زندگی بسر ہے ۔اب مجھے اجازت دے کہ
باقی زندگی میں اپنے خیالات کے مطابق گزار لوں تو ایک دھماکہ ہوا ۔اچانک دھماکہ ۔ میرے
پرخچے اڑ گئے۔ میری بوٹی بوٹی فضا میں بکھر گئی ۔ میں نے کہا، جاؤ بیٹا جاؤ ! اپنی
عمر جیو اپنا دور جیو ۔اس نے کہا ۔بابا ! میں اپنے دوست بناؤں گا ،میں اپنے ہم عمروں
میں رہوں گا،میں اپنا دور جیوں گا ۔تین ماہ کے بعد وہ واپس آ گیا ۔ میں نے کہا۔عکسی
! تم واپس کیوں آ گئے ؟ بولا،بےکار ہے بابا !تمہارے ساتھ رہ رہ کر میں بوڑھا ہو گیا
ہوں ۔تم نے مجھے بوڑھا کر دیا ہے ۔میرے ہم عمروں نے مجھے ریجیکٹ کر دیا ہے ۔وہ کہتے
ہیں تم ہم میں سے نہیں ہو۔ یو ڈونٹ بیلانگ ٹو اس۔ تم ہمارے دور کے نہیں ہو ۔ بڈھے طوطے
گٹ آؤٹ !بابا ! وہ جوجو حرکتیں کرتے ہیں ۔میں ان کا ساتھ نہیں دے سکتا تھا ۔ان میں
شمولیت نہیں کر سکتا تھا ۔مجھے ان کی باتیں ٹچ لگتی تھیں ۔ احمقانہ۔شہدی ۔
اس
روز میں نے شدت سے محسوس کیا کہ ہر نوجوان کے لئے اپنا دور جینا کتنا ضروری ہوتا ہے۔
اپنا دور جینے کے بغیر کسی فرد کی تکمیل نہیں ہوتی ۔صاحبو ! یہ صرف میری رائے ہی نہیں۔
آپ،میں،ہم سب اس حقیقت کو دیکھتے ہیں ،جانتے ہیں،لیکن دیکھ کر آنکھ چرا لیتے ہیں ۔ہم
میں اتنا حوصلہ نہیں کہ ایسی حقیقت کو دیکھیں۔ہم ہر ان پلیزنٹ حقیقت کو دیکھ کر اسے
نظر انداز کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ہم اس کبوتر کے مصداق ہیں،جو بلی کو دیکھ کر آنکھیں
بند کر لیتا ہے اور کہتا ہے،خطرے کی کوئی بات نہیں،سب اچھا سب اچھا ۔“