Friday, April 12, 2013

تلاش از ممتاز مفتی

0 comments

ادبی دنیا میں ممتاز مفتی کو میں نے ''علی پور کا ایلی'' کے مصنف کے طور سے جانا  اور  پھر شاید میں اس کے بعد مفتی کی کوئی اور تصنیف پڑھنے کے قابل نہیں رہی۔ علی پور کا ایلی'' کے سحر سے ہی نہیں نکل پائی  حیر کچھ دن پہلے ان کی ''تلاش'' پڑھی تو اس میں ایک پیراگراف 
نے مجھے رکنے ،سوچنے پر مجبور کر دیا  تو میں نے سوچا پھر کیوں نہ اس کاپنے قارئین سے شئیر کروں۔

تلاش از ممتاز مفتی سے اقتباس:

”یہ عظیم حقیقت مجھے میرے بیٹے نے سکھائی تھی۔جب وہ بیس سال کا ہوا تو ایک روز وہ میرے پاس آیا اور کہنے لگا۔ بابا ! میں تجھ سے 
ایک بات کرنا چاہتا ہوں ۔ میں نے کہا پوچھتا کیوں ہے شوق سے بات کر۔جو بھی کہنا چاہتا ہے کہ،تجھ پر کوئی بندش نہیں ہے ۔کہنے لگا،بابا ! بیس سال تک میں نے اپنی زندگی آپ کے خیالات کے مطابق گزاری ہے۔اب مجھے اجازت دیجئے کہ باقی زندگی میں اپنے خیالات کے مطابق گزار لوں۔اس کی یہ بات سن کر ایک دھماکہ ہوا۔مجھے یوں لگا جیسے صور پھونک دیا گیا ہو ۔میرے پرخچے اڑ گئے۔لیکن آپ یہ بات نہیں سمجھیں گے جب تک میں آپ کو باپ بیٹے کی کہانی نہ سنا دوں۔
جب عکسی چار سال کا ہوا تو اس کی والدہ فوت ہو گئی اور ہم باپ بیٹا اکیلے رہ گئے۔ان دنوں میں سکول ماسٹر تھا۔سکول جاتا تو عکسی کو انگلی لگا کر ساتھ لے جاتا ۔جب تک میں پڑھاتا رہتا،عکسی دیوار سے لگ کر کھڑا رہتا۔بازار جاتا تو اسے ساتھ لے جاتا ۔ہم دونوں اکیلے رہنے پہ مجبور تھے۔کوئی ہمارا ساتھ دینے کے لئے تیار نہ تھا،عکسی کو علم نہ تھا کہ یہ باپ کے مکافات عمل کا نتیجہ ہے،باپ نے جوانی میں کانٹے بوئے تھے ۔بیٹا لہو لہان ہو رہا تھا ۔ہمارا کوئی والی وارث نہ تھا،رشتہ دار نہ عزیز ۔ہم اکٹھے رہتے تھے،اکٹھے سوتے تھے،اکٹھے باتھ روم جاتے تھے۔ہم باپ بیٹا نہ تھے دو ساتھی تھے۔
پھر عکسی بڑا ہو گیا اور میرا تبادلہ کراچی ہو گیا۔ وہاں میرا ایک دوست تھا قیصر ۔قیصر میرا بھانجہ بھی تھا اور دوست بھی ۔بھانجہ کم کم اور دوست زیادہ ۔قیصر لنڈورا تھا ۔دو سال اس نے ہمیں بھی لنڈورا بنائے رکھا ۔سارا دن ہم کراچی میں آوارہ گردی کرتے ۔بازاروں میں چلتے پھرتے۔گنڈیریاں چوستے ۔سٹالوں پر کھڑے ہو کر کباب کھاتے۔کافی ہاؤس میں پیالے پر پیالہ انڈیلتے اور پھر شام پڑتی تو کسی سنیما ہاؤس میں فلم دیکھتے۔روز بلا ناغہ۔یہ ساری عیاشی قیصر کی وجہ سے تھی،میں تو قلاش تھا۔وہ امریکی دفتر میں افسر تھا ۔
کوئی ہمیں دیکھ کر نہ جان سکتا تھا کی تینوں میں ایک باپ اور ایک ماموں ہے،ایک بھانجہ ہے ایک بیٹا ہے۔میں خود پر بڑا خوش تھا،میں خود کو شاباش دیتا تھا۔ میں سمجھتا تھا میں سمجھتا تھا کہ میں وہ باپ ہوں جس نے اپنے اور اپنے بیٹے کے درمیان کوئی احترام کی دیوار حائل ہونے نہیں دی۔ جس نے بیٹے پر حکم نہیں چلایا ۔اسے کوئی نصیحت نہیں کی۔"من نہ کردم شمار حذر بکنید"قسم کی نصیحت ۔ میں وہ باپ ہوں جس نے بیٹے کو دوست بنائے رکھا ۔میں دل ہی دل میں کہتا تھا،لوگو ! میرے گلے میں ہار ڈالو ،مجھے ایوارڈ دو،میں وکٹوریہ کراس قسپ کے ایوارڈ کا مستحق ہوں ۔ان خیالات میں جب مجھے میرے بیٹے نے کہا کہ بابا ! بیس سال میں نے تیرے خیالات کے مطابق زندگی بسر ہے ۔اب مجھے اجازت دے کہ باقی زندگی میں اپنے خیالات کے مطابق گزار لوں تو ایک دھماکہ ہوا ۔اچانک دھماکہ ۔ میرے پرخچے اڑ گئے۔ میری بوٹی بوٹی فضا میں بکھر گئی ۔ میں نے کہا، جاؤ بیٹا جاؤ ! اپنی عمر جیو اپنا دور جیو ۔اس نے کہا ۔بابا ! میں اپنے دوست بناؤں گا ،میں اپنے ہم عمروں میں رہوں گا،میں اپنا دور جیوں گا ۔تین ماہ کے بعد وہ واپس آ گیا ۔ میں نے کہا۔عکسی ! تم واپس کیوں آ گئے ؟ بولا،بےکار ہے بابا !تمہارے ساتھ رہ رہ کر میں بوڑھا ہو گیا ہوں ۔تم نے مجھے بوڑھا کر دیا ہے ۔میرے ہم عمروں نے مجھے ریجیکٹ کر دیا ہے ۔وہ کہتے ہیں تم ہم میں سے نہیں ہو۔ یو ڈونٹ بیلانگ ٹو اس۔ تم ہمارے دور کے نہیں ہو ۔ بڈھے طوطے گٹ آؤٹ !بابا ! وہ جوجو حرکتیں کرتے ہیں ۔میں ان کا ساتھ نہیں دے سکتا تھا ۔ان میں شمولیت نہیں کر سکتا تھا ۔مجھے ان کی باتیں ٹچ لگتی تھیں ۔ احمقانہ۔شہدی ۔
اس روز میں نے شدت سے محسوس کیا کہ ہر نوجوان کے لئے اپنا دور جینا کتنا ضروری ہوتا ہے۔ اپنا دور جینے کے بغیر کسی فرد کی تکمیل نہیں ہوتی ۔صاحبو ! یہ صرف میری رائے ہی نہیں۔ آپ،میں،ہم سب اس حقیقت کو دیکھتے ہیں ،جانتے ہیں،لیکن دیکھ کر آنکھ چرا لیتے ہیں ۔ہم میں اتنا حوصلہ نہیں کہ ایسی حقیقت کو دیکھیں۔ہم ہر ان پلیزنٹ حقیقت کو دیکھ کر اسے نظر انداز کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ہم اس کبوتر کے مصداق ہیں،جو بلی کو دیکھ کر آنکھیں بند کر لیتا ہے اور کہتا ہے،خطرے کی کوئی بات نہیں،سب اچھا سب اچھا ۔“

Wednesday, March 27, 2013

gAZAL

0 comments

Sunday, March 24, 2013

میرا پیغمبر عظیم تر ہے

1 comments


میرا پیغمبر عظیم تر ہے

میں یہاں اس نبی کا تذکرہ کرنے نہیں جا رہی، جسکا سایہ نہ تھا، جو اپنے لعاب دہن سے امراض کو اچھا کر دیتا تھا  جس کی انگلیوں سے پانی کی دھاریں بہیں، جس کی انگلی کے اشارے سے چاند دو ٹکڑے ہو گیا اور جسکی پیدائش پہ  ایوان کسری کے چودہ کنگورے گر گئے، مجوس کا آتش کدہ ٹھنڈا ہو گیا، بحیرہ سادہ خشک ہو گیا اور اسکے گرجے منہدم ہو گئے۔
یہ ایک انسان کے بارے میں ہے جسے قرآن کے الفاظ میں انسانوں کے درمیان سے نبوت کے عہدے پہ فائز کیا گیا۔ تاکہ دوسرے  انسان اسکی تعلیمات سے اسی طرح سیکھیں جیسے اور انسانوں سے سیکھتے ہیں اور انہیں یہ اعتراض نہ ہو کہ  یہ تو ہے ہی ایک مافوق الفطرت شخص ہم بھلا کہاں اسکے جیسے کام کر سکتے ہیں۔
یہاں میں ایک کتاب کا حوالہ دینا چاہونگی  جسکے مصنف مائیکل ہارٹ ہے یہ میرے کتابوں کے مجموعے میں دس سال پہلے شامل ہوئ۔ انیس سو اٹھتر میں شائع ہونے والی اس کتاب میں دنیا کی تمام تاریخ سے سو افراد کو چنا گیاہے۔ سو ایسے افراد جنہوں نے انسانی تاریخ کا دھارا بدل دیا اور جنکے اثر سے دنیا آج بھی آزاد نہ ہو سکی ان سو افراد کو ترتیب دیتے ہوئے مائیکل نے جس شخصیت کو سب سے پہلا نمبر دیا وہ رسول اللہ کی ذات ہے۔
وہ کہتا ہے میرا یہ انتخاب کچھ پڑھنے والوں کو حیران کر دیگا۔ لیکن در حقیقت محمد[صلعم]  دنیا کی تاریخ میں وہ واحد شخص ہیں جنہوں نے  مذہبی اور سیکولر دونوں سطحوں پہ بے انتہا کامیابی حاصل کی۔ محمد [صلعم] نے دنیا کے عظیم مذاہب میں سے ایک کی تبلیغ کی اور ایک انتہائ پر اثر سیاسی رہ نما ثابت ہوئے۔
 تاریخ کی بہت اہم شخصیات کے بر عکس محمد[صلعم] کو دنیا کے کسی اہم  تہذیبی مرکز یا ثقافتی سطح پہ یا سیاسی طور پہ اہمیت کی حامل قوم میں موجود ہونے کا فائدہ نہیں ملا۔ بلکہ وہ علاقہ جہاں وہ موجود تھے اس وقت دنیا کا ایک پسماندہ علاقہ تھا۔ انکی اپنی زندگی آسانیوں سے مرقع نہ تھی اسلامی تعلیمات کے مطابق وہ پڑھے لکھے نہ تھے۔ عرب کے مختصر حالات یہ تھے کہ وہ بہت سارے خداءووں پہ یقین رکھتے تھے۔ کچھ یہودی اور عیسائ بھی وہاں موجود تھے لیکن وہ بھی اتنا اثر نہ رکھتے تھے۔ عرب قبائل آپس کی جنگوں میں الجھے رہتے تھے اور انہیں  بے تحاشہ معاشی مسائل کا سامنا تھا۔
 وہ مزید کہتا ہے کہ اگرچہ دنیا میں عیسائیوں کی تعداد مسلمانوں سے تقریباً دوگنی ہے تو یہ سوال کیا جا سکتا ہے کہ پھر محمد [صلعم] کو نمبر ایک کیوں دیا۔  اسکی وجہ اسکے مطابق  یہ ہے کہ اسلام کو مرتب کرنے میں اور اسے پھیلانے میں محمد[صلعم] نے جتنا کام کیا۔  وہ کرائسٹ یعنی حضرت عیسی نے نہیں کیا۔

حتی کہ مسلمانوں کی مذہبی کتاب قرآن کو لکھوانے  اور محفوط رکھنے کا جو کام محمد[صلعم] نے کیا
وہ حضرت عیسی بلکہ انکے نائیبین  نے بھی نہیں کیا۔
 اسی طرح کی اور مثالیں دیتے ہوئے مائیکل محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو تاریخ کی سب سے زیادہ کامیاب اور پر اثر شخصیت قرار دیتا ہے۔
مائیکل وہ واحد شخص نہیں جو اس چیز کا اعتراف کرتا ہے۔ یہ اعتراف ہر وہ شخص کرتا نظر آتا ہے جو رسول اللہ کی جدو جہد کی داستان کو بغیر کسی جانبداری اور عقیدت کے پڑھتا ہے۔ انہیں اپنے ماحول کے لحاظ سے اتنے انقلابی فیصلے کرتے دیکھتا ہے۔ انہیں جنگیں لڑتے دیکھتا ہے۔ حاصل ہونے والی فتح سے بردباری سے نبٹتے دیکھتا ہے۔ اور شکست ہونے پہ اپنا رد عمل ظاہر کرتے ہوئے دیکھتے ہے۔ انہیں اپنی خاندانی زندگی گذارتے دیکھتا ہے، خوشی اور غم کو برتتے دیکھتا ہے اور لوگوں  کیساتھ دیکھتا ہے اور پھر خلوت میں دیکھتا ہے۔ اپنے عزم پہ جمے دیکھتا ہے اور لوگوں کی ہمتیں باندھتے دیکھتا ہے ، ایک سپہ سالار کو دیکھتا ہے اور ایک واعظ کو دیکھتا ہے، مسلمانوں کیساتھ دیکھتا ہے اور غیر مسلموں کیساتھ دیکھتا ہے اور ان سب چیزوں کو دیکھنے کے بعد انکی ذات سے متائثر ہونا ، پھر ان دیکھے خدا پہ ایمان لے آنا کتنا ہی آسان اور صحیح کام  لگتا ہے۔ محمد مصطفی سے آشنا ہونے کے بعد کیا کوئ خدا سے نا آشنا رہ سکتا ہے۔
کشف الدجی بجمالہ
حسنت جمیع خصالہ
صلو الیہ وٰاٰلہ

غالب اور بہتّر حوریں

0 comments


غالب اور بہتّر حوریں

غالب نے کہا کہ سو پشت سے ہے پیشہ آباء سپہ گری، کچھ شاعری ذریعہ عزت نہیں مجھے۔   تحریراً، انہوں نے بھی مغل بچہ ہونے کی وجہ سےاسی بات پہ اکتفا کیا کہ یا تو مارو یا مار رکھو۔ لیکن افسوس تلوار اپنے ہاتھ میں کبھی نہ اٹھائ کہ خانہ ء دل میں مژگاں کی تلواریں تو گڑی رہتی ہیں، دستی تلواروں کا کام نہیں۔ ویسے بھی جو گڑ سے مر رہاہو اسے تلوار سے کیا مارنا۔ اگرچہ کہ فی زمانہ گڑ سے مارنے کا طریقہ بھی استعمال ہو رہا ہے۔ لیکن اس زمانے کے بارے میں کیا کہیں ہر غیر مستعمل طریقہ مرنے اور مارنے کے لئیے استعمال ہو رہا ہے۔ جدت شاید اسے ہی کہتے ہیں۔ خیر بات غالب کی ہو رہی تھی۔ایک واضح وجہ جو سمجھ میں آتی ہے اپنے  آباء کے پیشے سے انحرف کی۔وہ انہوں نے کچھ اس طرح پیش کی کہ،
ایسی جنت کا کیا کر ے کوئ
جس میں لاکھوں برس کی حوریں ہوں
قیاس کہتا ہے کہ وہ سمجھتے تھے کہ میدان جنگ میں مارے جانے کے بعد انعام میں جو حوریں ملیں گی وہ اسٹاک میں ایک دفعہ بنا لی گئ ہیں اور بس ان میں سے ہی بہتّر  اب ہر مرد مجاہد کے حصے میں آتی رہیں گی۔ ایسی بہتّر حوروں کے اپنے پہلو میں رہنے سے وہ اتنے خائف تھے کہ شاعری اور شوق خمار کے بعد انکساری سے کچھ اور تدبیروں پہ غور کیا کرتے تھے۔
مرنے کی اے دل، اور ہی تدبیر کر کہ میں
شایان دست و بازوئے قاتل نہیں رہا
لوگوں کا کہنا ہے کہ ایسی ہی ایک تدبیر کے نتیجے میں انہوں نے قرض کی مے پینے کی لت پالی۔ لیکن  بعد میں اس معاملے کو بروز ابر مہتاب کبھی کبھی پہ چھوڑ کے  علم بغاوت بلند کیا اور  شدت جذبات میں حوروں کی تحقیر کرنے میں کوئ کسر نہ چھوڑی۔ کچھ بی جمالو صفت لوگوں کا کہناہے کہ معاملہ کو اس نوعیت پہ پہنچا دیا کہ خاکی خواتین اور حوروں کو آمنے سامنے کر کے خاکی خواتین کے پاءوں دھوتے رہے اور اہل تماشہ کے جذبات کو برانگیختہ کرنے کی کوشش میں اس طرح کی اطلاعات پہنچائیں کہ
میں جو کہتا ہوں کہ ہم لینگے قیامت میں تمہیں
کس رعونت سے وہ کہتے ہیں کہ ہم حور نہیں
یوں ایسی مغرور خاکی خواتین سے بیزار ہونے والوں کا  ایک حلقہ وجود میں آگیا جو آج حیرانی سے پوچھتا ہے کہ خاکی ناپاک عورتوں کا دنیا میں کیا کام ہے۔ انہی لگائ بجھائ کرنے والوں کا فرمانا ہے کہ محترم شاعر نے اپنی شاعری کے ہنر کو اس جنگ میں بخوبی استعمال کیا اور خاکی خواتین کا دماغ خراب کرنے میں کو ئ کسر نہ چھوڑی۔
تسکیں کو ہم نہ روئیں جو ذوق نظر ملے
حوران خلد میں تیری صورت مگر ملے
ان عناصر کا یہ بھی کہنا ہے کہ آج سے ڈیڑھ سو سال پہلے انہوں نے آج پیش آنیوالے واقعات کا میں دخل اندازی کرنے کی کوشش کرتے ہوئے جنت کو بھی بس ایسی ویسی جگہ قرار دینے کی کوشش کی، اور کہا
کم نہیں جلوہ گری میں، ترے کوچے سے بہشت
یہی نقشہ ہے، ولے اسقدر آباد نہیں
یہاں میں اتنا ہی کہہ سکتی ہوں کہ وہ دوزخ کی آبادی کو جنت میں تلاش کر رہے تھے ، اور اسکا سرا کسی کے کوچے سے ملا دیا۔ لیکن یہ بھی انکی ادا ہی تھی ورنہ وہ یہ کیوں کہتے کہ
سنتے ہین جو بہشت کی تعریف، سب درست
لیکن خدا کرے، وہ ترا جلوہ گاہ ہو
انکی اس قسم  کی باتوں پہ کچھ بد بختوں نے جب  انہیں کافر قرار دینے کی کوشش کی تو انہوں نے اس الزام کو ایک جنبش قلم سے پرے کر دیا کہ ہوں ولی پوشیدہ اور کافر کھلا۔ امتداد زمانہ سے اب اس بات پہ فخر کیا جانے لگا ہے کہ پوشیدہ طور پہ کافر ہوں مگر کھلے ولی ہوں۔ جناب گئے زمانے کے بزرگ بھی کیا طبیعت رکھتے تھے۔
کچھ دشمنوں نے یہ بھی پھیلانے کی کوشش کی یہ سب انہوں نے پریزادوں سے انتقام لینے کے لئیے کیا تھا۔ اور اسی لئیے انہوں نے کہا کہ
ان پریزادوں سے لینگے خلد میں ہم انتقام
قدرت حق سے یہی، حوریں اگر واں ہو گئیں
لیکن جیسا کہ کوئ بھی دیکھ سکتا ہے کہ اس شعر میں بھی حوروں سے انکی مراد یہی خاکی خواتین ہیں۔انکی خاکی خواتین سے یہ انس و محبت دیکھ کر یہ حقیر، انجمن آزدی ء نسواں سے یہ التماس کرنا چاہتی ہے کہ انہیں حقوق خاکی خواتین کے علمبرداروں میں سے ایک سمجھا جائے اور تمام رپورٹس اورخبروں میں انکی شاعری کی ترویج کی جائے۔مملکت خداداد میں جہاد کیخلاف چلنے والی تحریکوں میں اس بات کا تذکرہ بار بار کیا جائے کہ حاصل ہونے والی بہتّر حوریں کس قدر پرانی ہیں کہ اماں حوا کی نانی ہیں۔ انہیں بتایا جائے کہ دنیا میں ایک مخلوق عورت نامی بھی بستی ہے اور اسکے ساتھ رہنے سے لڑائ بھڑائ کی صلاحیتیں گھر کی گھر میں ہی خرچ ہو جاتی ہیں۔ اور انہیں قابو میں رکھنے کی فکر میں،مرنے کے بعد کیا ہوگا کی فکر سے نجات مل جاتی ہے۔
مخالفین سے درخواست ہے کہ اس قسم کے شعر لا کر غالب کے صحیح الدین ہونے اور جانبداریت پہ مسئلہ نہ کھڑا کریں کہ
چھوڑونگا نہ میں بت کافر کو پوجنا
چھوڑے نہ خلق گو مجھے کافر کہے بغیر
یہ سب دشمنوں کی اڑائ ہے۔ وہ بہرحال خاکی مسلمان خواتین کے قدردانوں میں سے تھے اور  اپنی اس غلطی سے یہ کہہ کر رجوع کر چکے  تھے کہ
دل دیا جان کے کیوں اسکو وفادار اسد
غلطی کی جو کافر کو مسلماں سمجھا
تو پیاری بہنوں ہمیں مرد حق غالب کے خلوص نیت پہ شک نہیں کرنا چاہئیے
حق مغفرت کرے عجب آزاد مردتھا۔

Tuesday, February 26, 2013

آج یوں موج در موج غم تھم گیا اس طرح غم زدوں کو قرار آگیا(فیض احمد فیض)

0 comments

آج یوں موج در موج غم تھم گیا اس طرح غم زدوں کو قرار آگیا
جیسے خوشبوئے زلفِ بہار آ گئی جیسے پیغامِ دیدارِ یار آگیا

جس کی دید و طلب وہم سمجھے تھے ہم رُو بُرو پھر سرِ رہگزر آگیا
صبحِ فردا کو پھر دل ترسنے لگا، عمر  رفتہ ترا اعتبار آگیا

رُت بدلنے لگی رنگِ دل دیکھنا، رنگِ گلشن سے اب حال کھلتا نہیں
زخم چھلکا کوئی یا کوئی گُل کھِلا، اشک اُمڈے کہ ابرِ بہار آگیا

خونِ عُشاق سے جام بھرنے لگے، دل سُلگنے لگے، داغ جلنے لگے
محفلِ درد پھر رنگ پر آ گئی، پھر شبِ آرزو پر نکھار آگیا

سر فروشی کے انداز بدلے گئے، دعوتِ قتل پر مقتل شہر میں
ڈال کر کوئی گردن میں طوق آگیا، لاد کر کوئی کاندھے پہ دار آگیا

فیض کیا جانئے یار کس آس پر، منتظر ہیں کہ لائے گا کوئی خبر
میکشوں پر ہُوا محتسب مہرباں، دل فگاروں پہ قاتل کو پیار آگیا

Friday, February 22, 2013

غزل از عبید اللہ علیم

0 comments

عزیز اتنا ہی رکھو کہ جی سنبھل جائے
اب اس قدر بھی نہ چاہو کہ دم نکل جائے

ملے ہیں یوں تو بہت آؤ اب ملیں یوں بھی
کہ روح گرمئ انفاس سے پگھل جائے

محبّتوں میں عجب ہے دلوں کو دھڑکا سا
کہ جانے کون کہاں ‌راستہ بدل جائے

زہے وہ دل جو تمنّائے تازہ تر میں رہے
خوشا وہ عمر جو خوابوں ہی میں بہل جائے

 میں وہ چراغِ سرِ راہ گزارِ دنیا ہوں
جو اپنی ذات کی تنہائیوں میں جل جائے

ہر ایک لحظہ، یہی آرزو، یہی حسرت
جو آگ دل میں ہے وہ شعر میں بھی ڈھل جائے

زندگی سے ڈرتے ہو؟ - از ن م راشد

0 comments

زندگی سے ڈرتے ہو؟
زندگی تو تم بھی ہو، زندگی تو ہم بھی ہیں!
آدمی سے ڈرتے ہو؟
آدمی تو تم بھی ہو، آدمی تو ہم بھی ہیں!

آدمی زباں بھی ہے، آدمی بیاں بھی ہے،
اس سے تم نہیں ڈرتے!
حرف اور معنی کے رشتہ ہائے آہن سے، آدمی ہے وابستہ
آدمی کے دامن سے زندگی ہے وابستہ
اس سے تم نہیں ڈرتے!
ان کہی‘سے ڈرتے ہو
جو ابھی نہیں آئی، اُس گھڑی سے ڈرتے ہو
آس گھڑی کی آمد کی آگہی سے ڈرتے ہو!

پہلے بھی تو گزرے ہیں،
دور نارسائی کے، ’بے ریا‘ خدائی کے
پھر بھی یہ سمجھتے ہو، ہیچ آرزو مندی
یہ شبِ زباں بندی، ہے رہِ خدا وندی
تم مگر یہ کیا جانو،
لب اگر نہیں ہلتے، ہاتھ جاگ اُٹھتے ہیں
ہاتھ جاگ اُٹھتے ہیں، راہ کا نشاں بن کر
نور کی زباں بن کر
ہاتھ بول اُٹھتے ہیں، صبح کی اذاں بن کر
روشنی سے ڈرتے ہو؟
روشنی تو تم بھی ہو، روشنی تو ہم بھی ہیں،
روشنی سے ڈرتے ہو

شہر کی فصیلوں پر
دیو کا جو سایہ تھا پاک ہو گیا آخر
رات کا لبادہ بھی
چاک ہو گیا آخر
اژدہامِ انساں سے فرد کی نوا آئی
زات کی صدا آئی
راہِ شوق میں جیسے راہرو کا خوں لپکے
اک نیا جنوں لپکے
آدمی چھلک آٹھے
آدمی ہنسے دیکھو، شہر پھر بسے دیکھو
تم ابھی سے ڈرتے ہو؟
ہاں ابھی تو تم بھی ہو، ہاں ابھی تو ہم بھی ہیں،
تم ابھی سے ڈرتے ہو!

آج کا شعر

دلوں میں فرق پڑ جائے تو اتنا یاد رکھنا تم

دلیلیں، منتیں ، سب فلسفے بیکار جاتے ہیں

Powered by Blogger.

آج کا شاعر

Faiz Ahmad Faiz