محبت کیا ہے؟
اس کی حقیقت کیا ہے؟
کسی جذبے کا نام ہے؟
روح کی تسکین ہے یا جذبات کی؟
حاصل اس کاوصل ہے یا ہجر
کوئی اس کو روح کی تکمیل کہتا ہے؟ کوئی اس کے بغیر زندگی کو ادھورا سمجھتا ہے؟ ہر انسان اپنی زندگی میں کسی نہ کسی طرح محبت کے نہ ہونے کا شکوہ ہی کرتا ہے!
محبت ہم سے زندگی میں بےشمار لوگ کرتے ہیں جن میں ہمارے والدین، بہن بھائی، دوست احباب ، عزیزواقارب شامل ہیں وہ سب ہم سے محبت کرتے ہیں اور شاید وہ شخص جو کہ محبت کا منکر بھی ہو ان رشتوں کی اہمیت سے انکار نہیں کرسکتا ، پتھر دل انسان بھی اپنے والدین سے تو محبت کرتا ہی ہے۔ محبت کا ایک اہم پہلو ، ایک انسانی زندگی کا سب سے روشن پہلو تو اب میرے ذہن میں آیا ہے دراصل میں کچھ بھی سوچے سمجھے بغیر لکھ رہی ہوں دل و دماغ خالی ہیں اس وقت بالکل ہر جذبے سے عاری ہو کر میں اس لطیف جذبے پہ لکھنے کی جسارت کر بیٹھی ہوں جس پر دنیا اندھا اعتبار کرتی ہے، اس کو پانے کے لیے دنیا کی ہر رکاوٹ سے اْلجھ جاتی ہے، باغی ہوجاتے ہیں لوگ اور پاگل بھی، اس کی خاطر دنیا کا ہر رشتہ چھوڑنے پر ہمہ وقت تیار لیکن یہ محبت کیا کسی خاص جنس سے مشروط ہے؟ کیا محبوب اور محب کا رشتہ صرف دو دلوں کے ملنے اور پھر رشتہ ازدواج میں بندھنے کا نام ہے؟ کیا محبت صرف مخالف جنس سے ہی کی جاتی ہے ؟ محبت تو خدا کا گیان ہے جو کہ ہر دل میں کہیں نہ کہیں موجود ہے اور اس تک پہنچنے کے لیے آگہی چاہیے، اتنی ہمت چاہیے محبت تو خدا کا روپ ہے اور اگر اس کے درشن کی لگن دل میں ہے تو سینہ طور سے بھی زیادہ طاقت ور ہونا چاہیے، محبت اگر دل کے کواڑوں پہ دستک دے کر جواب کا انتظار کیے بغیر اندر گْھس آئے تو انسان اس کے ساتھ کتنی خوش اخلاقی کے ساتھ پیش آسکتا ہے لیکن ۔۔۔۔ اتنی ڈھیٹ ہے کہ نہ تو خود اس میں عزتِ نفس ہے اور نہ ہی یہ کسی اور میں رہنے دیتی ہے یہ محبت ہی ہے جو قیس کے شہزادے کو بلخ بخارے کی خاک چھاننے پر اور تخت ہزارے کے والی کو بھینسوں کا راکھا بنادیتی ہے یہ محبت ہی ہے جو کیچ مکران کے شہزادے پنوں کو بھیس بدلنے پر مجبور کردیتی ہے یہ محبت ہی ہے جو سسی کو صحراؤں کے خاک چھاننے اور پھر زندہ درگور ہوجانے کا حوصلہ دیتی ہے ، محبت ہی ہے جو سوہنی کو کچے گھڑے پر چناب کی اٹھتی لہروں کے مقابلے کی سکت بخشتی ہے بہرحال میں نے اوپر لکھا کہ پتھر دل انسان بھی اپنے والدین سے تو محبت کرتا ہی ہے، محبت کا ایک پہلو مذہب سے محبت بھی ہے گو کہ یہ مجھے سب سے پہلے لکھنا چاہیے تھا کہ انسان کی اساس ہی یہ ہے انسان مذہب کے نام پر جان تک کی پروا نہیں کرتا ہر انسان خواہ وہ کتنا ہی دنیا کی نظروں میں گرا ہوا کیوں نہ ہو خدا کے حضور جا کر اس کو اپنی محبت کا اس کی محبت کا واسطہ دے کر جب بھی جو بھی مانگے گا پائے گا ، ایک انسان کتنا ہی گناہگار کیوں نہ ہو اس کا محبت سے کہا گیا ایک جملہ محبت سے کیا گیا کوئی ادنیٰ سا عمل بھی اس کی رہائی کا سبب بن جائے گا یہ خد ا کی محبت ہے اپنے بندوں کے لیے کہ وہ ان کو ان کے کاموں میں رعائتیں دیتا ہے جیسے ماں اپنے بچے کو لالچ دیتی ہے کہ دودھ پی لو کہانی سناؤں گی باپ کہتا ہے امتحان میں اچھے نمبر لے لوں فلاں چیز لے کے دوں گا اسی طرح خدا بھی اپنے بندوں کو محبت سے لالچ دیتا ہے اور پھر محبت کا بدلہ محبت ہی سے اتارتا ہے۔
اور اب سارے خیالات گڈ مڈ۔۔۔