Saturday, July 28, 2012

محبت نام ہے کس کا!!!!

0 comments

محبت کیا ہے؟
 اس کی حقیقت کیا ہے؟
کسی جذبے کا نام ہے؟
روح کی تسکین ہے یا جذبات کی؟
حاصل اس کاوصل ہے یا ہجر
کوئی اس کو روح کی تکمیل کہتا ہے؟ کوئی اس کے بغیر زندگی کو ادھورا سمجھتا ہے؟ ہر انسان اپنی زندگی میں کسی نہ کسی طرح محبت کے نہ ہونے کا شکوہ ہی کرتا ہے!
محبت ہم سے زندگی میں بےشمار لوگ کرتے ہیں جن میں ہمارے والدین، بہن بھائی، دوست احباب ، عزیزواقارب شامل ہیں وہ سب ہم سے محبت کرتے ہیں اور شاید وہ شخص جو کہ محبت کا منکر بھی ہو ان رشتوں کی اہمیت سے انکار نہیں کرسکتا ، پتھر دل انسان بھی اپنے والدین سے تو محبت کرتا ہی ہے۔ محبت کا ایک اہم پہلو ، ایک انسانی زندگی کا سب سے روشن پہلو تو اب میرے ذہن میں آیا ہے دراصل میں کچھ بھی سوچے سمجھے بغیر لکھ رہی ہوں دل و دماغ خالی ہیں اس وقت بالکل ہر جذبے سے عاری ہو کر میں اس لطیف جذبے پہ لکھنے کی جسارت کر بیٹھی ہوں جس پر دنیا اندھا اعتبار کرتی ہے، اس کو پانے کے لیے دنیا کی ہر رکاوٹ سے اْلجھ جاتی ہے، باغی ہوجاتے ہیں لوگ اور پاگل بھی، اس کی خاطر دنیا کا ہر رشتہ چھوڑنے پر ہمہ وقت تیار  لیکن یہ محبت کیا کسی خاص  جنس سے مشروط ہے؟ کیا محبوب اور محب کا رشتہ صرف دو دلوں کے ملنے اور پھر  رشتہ ازدواج میں بندھنے کا نام ہے؟ کیا محبت صرف مخالف جنس سے ہی کی جاتی ہے ؟ محبت تو خدا کا گیان ہے جو کہ ہر دل میں کہیں نہ کہیں موجود ہے اور اس تک پہنچنے کے لیے آگہی چاہیے، اتنی ہمت چاہیے محبت تو خدا کا روپ ہے اور اگر اس کے درشن کی لگن دل میں ہے تو سینہ طور سے بھی زیادہ طاقت ور ہونا چاہیے، محبت اگر دل کے کواڑوں پہ دستک دے کر جواب کا انتظار کیے بغیر اندر گْھس آئے تو انسان اس کے ساتھ کتنی خوش اخلاقی کے ساتھ پیش آسکتا ہے لیکن ۔۔۔۔ اتنی ڈھیٹ ہے کہ نہ تو خود اس میں عزتِ نفس ہے اور نہ ہی یہ کسی اور میں رہنے دیتی ہے یہ محبت ہی ہے  جو قیس کے شہزادے کو بلخ بخارے کی خاک چھاننے پر اور تخت ہزارے کے والی کو بھینسوں کا راکھا بنادیتی ہے یہ محبت ہی ہے جو  کیچ مکران کے شہزادے پنوں کو بھیس بدلنے پر مجبور کردیتی ہے یہ محبت ہی ہے جو سسی کو صحراؤں کے خاک چھاننے اور پھر زندہ درگور ہوجانے کا حوصلہ دیتی ہے ، محبت ہی ہے جو سوہنی کو کچے گھڑے پر  چناب  کی اٹھتی لہروں کے مقابلے کی سکت بخشتی ہے  بہرحال میں نے اوپر لکھا کہ پتھر دل انسان بھی اپنے والدین سے تو محبت کرتا ہی ہے، محبت کا ایک پہلو مذہب سے محبت بھی ہے گو کہ یہ مجھے سب سے پہلے لکھنا چاہیے تھا کہ انسان کی اساس ہی یہ ہے انسان مذہب کے نام پر جان تک کی پروا نہیں کرتا ہر انسان خواہ وہ کتنا ہی دنیا کی نظروں میں گرا ہوا کیوں نہ ہو خدا کے حضور جا کر اس کو اپنی محبت  کا اس کی محبت کا واسطہ دے کر جب بھی جو بھی مانگے گا پائے گا ، ایک انسان کتنا ہی گناہگار کیوں نہ ہو اس کا محبت سے کہا گیا ایک جملہ محبت سے کیا گیا کوئی ادنیٰ سا عمل بھی اس کی  رہائی کا سبب بن جائے گا یہ خد ا کی محبت ہے اپنے بندوں کے لیے  کہ وہ ان کو ان کے کاموں میں رعائتیں دیتا ہے جیسے ماں اپنے بچے کو لالچ دیتی ہے کہ دودھ پی لو کہانی سناؤں گی باپ کہتا ہے امتحان میں اچھے نمبر لے لوں فلاں چیز لے کے دوں گا اسی طرح خدا بھی اپنے بندوں کو محبت سے لالچ دیتا ہے اور پھر محبت کا بدلہ محبت ہی سے اتارتا ہے۔
اور اب سارے خیالات گڈ مڈ۔۔۔

Thursday, July 19, 2012

دلِ ناداں تجھے ہوا کیا ہے!

0 comments


آج صبح سے دل بارہا کْرلا رہا تھا کہ کیوں مجھ پہ یہ ظلم، کیوں مجھ پر وحشتیں طاری کر رکھی ہیں جو کچھ بھی ہے نکال پھینکو باہر مجھے بھی سانس لینے دو، یہ گھٹن اگر میرے اند رہی تو میں تم سے بہت برا پیش آؤں گا اور دلِ ناداں یہ دھمکی کاریگر ہوئی، کچھ ترس آیابے چارے پر تو انتخاب پر نظر ڈالی ۔سلیم کوثر کی یہ غزل دلِ ناداں کی نذر جو سب کچھ سمجھتے، جانتے بوجھتے ہوئے بھی جاننا چاہتا ہے کہ محبت کیا ہے تو ” سن 
لو! پڑھ لو شاید تسلی ہو جائے“۔

محبّت ڈائری ہرگز نہیں ہے
جس میں تم لکھو
کہ کل کس رنگ کے کپڑے پہننے، کون سی خوشبو لگانی ہے
کسے کیا بات کہنی، کون سی کس سے چھپانی ہے
کہاں کِس پیڑ کے سائے تلے ملنا ہے
مل کر پوچھنا ہے
کیا تمہیں مجھ سے محبّت ہے؟
یہ فرسودہ سا جملہ ہے
مگر پھر بھی یہی جملہ
دریچوں، آنگنوں، سڑکوں، گلی کوچوں میں چوباروں میں
چوباروں کی ٹوٹی سیڑھیوں میں
ہر جگہ کوئی کسی سے کہہ رہا ہے
کیا تمہیں مجھ سے محبّت ہے؟
محبّت ڈائری ہرگز نہیں ہے
جس میں تم لکھو
تمہیں کس وقت، کس سے کِس جگہ ملنا ہے کِس کو چھوڑ جانا ہے
کہاں پر کس طرح کی گفتگو کرنی ہے یا خاموش رہنا
کسی کے ساتھ کتنی دور تک جانا ہے اور کب لوٹ آنا ہے
کہاں آنکھیں ملانا ہے کہاں پلکیں جھکانا ہے
یا یہ لکھّو کہ اب کی بار جب وہ ملنے آئے گا
تو اس کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر
دھنک چہرے پہ روشن جگمگاتی رقص کرتی اس کی آنکھوں میں اتر جائیں گے
اور پھر گلشن و صحرا کے پیچوں پیچ دل کی سلطنت میں خاک اڑائیں گے
بہت ممکن ہے وہ عجلت میں آئے
اور تم اس کا ہاتھ، ہاتھوں میں نہ لے پاؤ
نہ آنکھوں ہی میں جھانکو اور نہ دل کی سلطنت کو فتح کر پاؤ
جہاں پر گفتگو کرنی ہے تم خاموش ہو جاؤ
جہاں خاموش رہنا ہے وہاں تم بولتے جاؤ
نئے کپڑے پہن کر گھر سے نکلو، میلے ہو جاؤ
کوئی خوشبو لگانے کا ارادہ ہو تو شیشی ہاتھ سے گر جائے
تم ویران ہو جاؤ
سفر کرنے سے پہلے بے سروسامان ہو جاؤ
محبت ڈائری ہرگز نہیں ھے آبِ جو ہے
جو دلوں کے درمیاں بہتی ھے خوشبو ہے
کبھی پلکوں پہ لہرائے تو آنکھیں ہنسنے لگتی ہیں
جو آنکھوں میں اتر جائے تو منظر اور پس ِمنطر میں شمعیں جلنے لگتی ہیں
کسی بھی رنگ کو چھو لے
وہی دل کو گوارا ہے
کسی مٹی میں گھل جائے
وہی مٹی ستارہ ہے
محبّت ڈائری ہرگز نہیں ہے۔۔۔


آج کا شعر

دلوں میں فرق پڑ جائے تو اتنا یاد رکھنا تم

دلیلیں، منتیں ، سب فلسفے بیکار جاتے ہیں

Powered by Blogger.

آج کا شاعر

Faiz Ahmad Faiz