۱۔
نگاہ فقر میں شان سکندری کیا ہے
خراج کی جو گدا ہو، وہ قیصری کیا ہے!
بتوں سے تجھ کو امیدیں، خدا سے نومیدی
مجھے بتا تو سہی اور کافری کیا ہے!
فلک نے ان کو عطا کی ہے خواجگی کہ جنھیں
خبر نہیں روش بندہ پروری کیا ہے
فقط نگاہ سے ہوتا ہے فیصلہ دل کا
نہ ہو نگا ہ میں شوخی تو دلبری کیا ہے
اسی خطا سے عتاب ملوک ہے مجھ پر
کہ جانتا ہوں مآل ِسکندری کیا ہے
کسے نہیں ہے تمنائے سروری، لیکن
خودی کی موت ہو جس میں وہ سروری کیا ہے!
خوش آگئی ہے جہاں کو قلندری میری
وگرنہ شعر مرا کیا ہے، شاعری کیا ہے!
۲۔
یہ پیام دے گئی ہے مجھے باد صبح گاہی
کہ خودی کے عارفوں کا ہے مقام پادشاہی
تری زندگی اسی سے، تری آبرو اسی سے
جو رہی خودی تو شاہی، نہ رہی تو روسیاہی
نہ دیا نشان منزل مجھے اے حکیم تو نے
مجھے کیا گلہ ہو تجھ سے، تو نہ رہ نشیں نہ راہی
مرے حلقۂ سخن میں ابھی زیر تربیت ہیں
وہ گدا کہ جانتے ہیں رہ و رسم کجکلاہی
یہ معاملے ہیں نازک، جو تری رضا ہو تو کر
کہ مجھے تو خوش نہ آیا یہ طریق خانقاہی
تو ہما کا ہے شکاری، ابھی ابتدا ہے تیری
نہیں مصلحت سے خالی یہ جہان مرغ و ماہی
تو عرب ہو یا عجم ہو، ترا ’لَا اِلٰہ اِلاَّ‘
لغت غریب، جب تک ترا دل نہ دے گواہی
-------------------
غزل
جب عشق سکھاتا ہے آداب خود آگاہی
کھلتے ہیں غلاموں پر اسرار شہنشاہی
عطار ہو، رومی ہو، رازی ہو، غزالی ہو
کچھ ہاتھ نہیں آتا بے آہ سحرگاہی
نومید نہ ہو ان سے اے رہبر فرزانہ!
کم کوش تو ہیں لیکن بے ذوق نہیں راہی
اے طائر لاہوتی! اس رزق سے موت اچھی
جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی
دارا و سکندر سے وہ مرد فقیر اَولیٰ
ہو جس کی فقیری میں بوئے اسد اللّٰہی
آئین جوانمرداں، حق گوئی و بے باکی
اﷲ کے شیروں کو آتی نہیں رُوباہی
غزل نمبر ۱۔
فرہنگ:
نگاہ: نظر قیصری: بادشاہت نومیدی: نا اْمیدی گدا: مانگنے والا خواجگی: بادشاہت، اعلیٰ مقام، روش: راستہ بندہ پرور:عاجز انسان تمنائے سروری: بادشاہت کی خواہش عتاب: قہر، غصہ ملوک: ملک کی جمع، ملک فارسی میں بادشاہ کو کہتے ہیں۔ مآل: انجام سکندری: سکندر بادشاہ خوش: پسند آنا
(۱)
اقبال کی شاعری میں فقر کا مطلب عجز و انکساری اور خودی کے معنوں میں آتا ہے اس شعر میں اقبال فرماتے ہیں کہ جو خدا کے صالح نیک اور فرماں برادار بندے ہیں ان کی نظر میں شانِ سکندری کی کیا حیثیت ہے کہ انہیں تو دنیا وی تقاضوں سے غرض ہی نہیں ہوتی اور وہ سمجھتے ہیں جو سرداری اپنی غیرت و حمیت، خودی اور عزتِ نفس کو کھو کر حاصل کی جائے اس کا کیا فائدہ ۔ اور خدا کے بندوں کی نظر میں دنیاوی شان و شوکت کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی۔
(۲)
اس شعر میں اقبال حضرتِ انسان سے مخاطب ہیں تو نے اپنی امیدیں خودساختہ خداؤں سے وابستہ کر رکھی ہیں اور خدا سے ،رحمتِ خداوندی سے تو نا اْمید ہے تو اب تو خود ہی بتا کہ اس سے بڑھ کے کفر اور کیا ہو گا۔ مومن تو خدا پر کامل یقین اور بھروسہ رکھتا ہے اور یہی یقین اسے کامیابی سے ہمکنار کرتا ہے اور جب انسان خدا کے علاوہ کسی اور سے اْمیدیں وابستہ رکھتا
ہے تو وہ گناہ کا مرتکب ہوتا ہے اور شرک کرتا ہے تو اقبال کہتے ہیں کہ یہ کفر ہے۔
(۳)
تیسرے شعر میں اقبال فرماتے ہیں کہ تقدیر یا قسمت ایسے لوگوں کو منصب عطا کر دیتی ہے جو کہ اس کے اہل نہیں ہوتے اور اصل میں خدا گنجے کو ناخن نہ دے ایسے ہی جب حکمران اقتدا میں آتے ہیں تو وہ اس منصب کے تقاضوں کو بھول جاتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ وہی مختارِ کل ہیں اور جنہیں انسانیت کے تقاضوں کی خبر نہیں اور نہیں جانتے کہ انسانیت کے حقوق کی پاسداری کے لیے ہی انہیں یہ منصب سونپا گیا ہے۔
(۴)
دلوں کے معاملات اور فیصلوں میں تمام اختیارات دل کے ہاتھ ہوتے ہیں اور یہ نظروں سے عیاں ہوتا ہے اور نظر نہ آئے وہ عشق، محبت یا دلبری کوئی معنی نہیں رکھتی اس میں یہ بھی ہے کہ آپ جو بھی کرو اپنے قول و فعل اور عمل سے اس کی وضاحت کرنی ضروری ہے ۔
(۵)
اس شعر میں اقبال کہتے ہی ں کہ دنیاوی ما ل و دولت عارضی اور فنا ہو جانے والی چیزیں ہیں اور میری نظر میں ان کی کوئی حیثیت نہیں اور اسی بنا پر بادشاہوں کا عتاب اور ان کے غصے کی وجہ میں ہوں کہ میں جانتا ہوں کہ دنیا میں سکندر کس انجام سے دوچار ہوا اس نےآدھی سے زیادہ دنیا پر حکمرانی کی لیکن جب دنیا سے رخصت ہوا تو دونوں ہاتھ خالی تھے جو بھی دنیاوی مال اسباب تھا وہ یہیں اسی دنیا میں رہ گیا۔
(۶)
حکمرانی اور اقتدار کی خواہش تو فطری ہے انسان زمیں پر خدا کا نائب بنا کر بھیجا گیا ہے اور اسے زمیں پر موجود تمام اشیا کا ملک بنایا گیا ہے لیکن اس کے ساتھ ہی اس میں خوداری، غیرت اور اپنی آن پر مر مٹنے کا جذبہ بھی دیا ہے لیکن اگر انسان کو اپنی شان اپنی خودی کا سودا کر کے، اسے قربان کر کے بادشاہت سے نوازا جائے تو اس کا کیا فائدہ۔
(۷)
یہ غزل کا آخری شعر ہے جس میں شاعر کہتا ہے کہ زمانے والوں کو میرا اندازِ بیاں میری قلندری میری عاجزانہ طبیعت بھائی ہے ورنہ میری شاعری میں ہی کوئی ایسی بات ہے اور نہ ہی شعر کوئی ایسا خاص اسلوب رکھتا ہے۔
غزل نمبر ۲:
فرہنگ :
ہما: ایک پرندہ جس کے بارے میں مشہور ہے کہ یہ جس کے سر پر بیٹھ جائے اسے اقتدا نصیب ہوتا ہے۔
بادِ صبحِ گاہی: صبح کی تیز ہوا
شاہی: بادشاہت
روسیاہی: کم نصیبی
رسمِ کجکلاہی:
تشریح:
اقبالؒ کو یہ کائنات ایک عظیم دھڑکتے ہوئے دل کی طرح محسوس ہوئی۔اُس کے اپنے دل کی دھڑکن ‘کائنات کی دھڑکنوں سے ہم آہنگ ہو گئی۔اُس نے جلوۂ جاناں کو ہر رنگ میں آشکار دیکھا۔اقبالؒ کو عشق نے اُس مقام تک پہنچا دیا ‘جہاں انسان کو غیر از جمالِ یار کچھ نظر نہیں آتا۔اُس مقام پر انسان کہہ اٹھتاہے:
؎اب نہ کہیں نگاہ ہے ‘اب نہ کوئی نگاہ میں
محو کھڑا ہوا ہوں میں’ حُسن کی جلوہ گاہ میں
اس منزلِ دیدارِ حُسن پر پہنچ کر انسان یہ بیان نہیں کر سکتا کہ یہ کیا مقام ہے؟ صاحبِ منزل خود آئینہ ہوتا ہے’خود رُوبرو’خود نظر اورخود ہی محوِ نظارہ ہو کر رہ جاتا ہے۔ لیکن اقبالؒ اس مقام پر ٹھہرا نہیں۔اُس نے جلوۂ حُسنِ کائنات سے معنیٔ کائنات کی طرف قدم بڑھایا۔اُسے حُسنِ فطرت نے ایک عظیم پیام عطا کیا۔اقبالؒ نے غور کیا کہ یہ کائنات کیا ہے’انسان کیا ہے’حُسن کیا ہے’عشق کیا ہے’زندگی کیا ہے’موت کیا ہے’مابعد موت کیا ہے’عمل کا مفہوم کیا ہے’عقل کیا چیز ہے’حیرت کیا ہے اور جلوہ کیا ہے’رموز کیا ہیں’ظاہر کیا ہے’باطن کیا ہے’سوز و مستی کیا ہے’سرُورِ جاوداں کیا ہے’رحیلِ کارواں کیا ہے”لا” کیا ہے”’اِلٰہ” کیا ہے’غرضیکہ یہ سب کچھ کیا ہے’کیوں ہے’کب سے ہے’کب تک ہے۔ نور و ظلمات کیاہیں۔غیاب و حضور کیا ہیں؟اسی تلاش و تجسس کے دوران اقبالؒ کو اپنے فکر کی عمیق گہرائیوں میں آخر ایک روشن نقطہ دکھائی دیا۔اور اس نقطے نے نُکتہ کھول دیا’ عقدہ کشائی کر دی’اقبالؒ کو اشیا ء و اعمال کی پہچان عطا ہوئی۔یہ نقطہ اُسے حقیقت آشنا کر گیا۔اُسے کائنات کی علامتیں نظر آئیں،شاہیں کا مفہوم سمجھ آیا،کرگس کے معنی سمجھ آئے’ صحبتِ زاغ کی خرابی سمجھ آئی۔اِسی روشن نقطے نے اسے اشیاء کے باطن سے تعارف کرایا’ رموزِ مرگ و حیات عطا کئے۔اُس نے گردشِ شام و سحر کا مقصد اِسی نقطے کی روشنی میں دریافت کیا۔یہ نقطہ پھیلتا تو کائنات بن جاتا اور سمٹتا تو آنکھ کا تِل بلکہ اقبالؒ کا دل بن جاتا۔ اسی روشن نقطے کو اقبال ؒ نے خودی کہا ہے۔
اقبالؒ نے خودی کو اتنی وسعت عطا کر دی ہے کہ اس کو کسی ایک حوالے سے سمجھنا مشکل ہے۔قاری کو یوں محسوس ہوتا ہے جیسے اسے کیا جا رہا ہے لیکن ایسا نہیں ہے۔ اقبالؒ بہر حال اقبالؒ ہے۔وہ فقیر ہے،عارفِ حق ہے،مفکرِ فِکرصالح ہے، ملّتِ اسلامیہ کا ایک غیور فرزند،پیرِ رومیؒ کا مریدِ با وقار ہے۔ فلسفۂ شرق وغرب سے آشنا ہونے والا اقبالؒ خودی کے تصور سے جو پیغام دے رہا ہے وہ ایک عظیم پیغام ہے۔ اقبالؒ خودی کے بحرِ بے پایاں سے افکار کے گوہرِ تابدار نکالتا ہے اور قاری کے دل و دماغ کو دولتِ لا زوال سے مالا مال کر دیتا ہے۔ اقبالؒ کی خودی کو سمجھنے کے لئے یہ ضروری ہے کہ انسان صاحبِ ادراک ہو،صاحبِ نظر ہو۔اقبالؒ نے یہ شرط عائد کر دی ہے کہ
نظر نہ ہو تو مرے حلقۂ سُخن میں نہ بیٹھ
کہ نکتہ ہائے خودی ہیں مثال ِ تیغ ِاصیل
اقبالؒ کا تصورِ خودی عارفوں کے لئے ہے،اہلِ نظر کے لئے ہے،شب بیداروں کے لئے ہے،آہِ سحر گاہی سے آشنا روحوں کے لئے ہے،دل والوں کے لئے ہے،عشق والوں کے لئے ہے۔ یہ وہ علم ہے جو اہلِ علم کے لئے نہیں بلکہ اہلِ نظر کے لئے ہے۔اقبالؒ کہتا ہے کہ
؎ اقبالؒ یہاں نام نہ لے علمِ خودی کا
موزوں نہیں مکتب کے لئے ایسے مقالات
خودی کو سمجھنے کے لئے یہ ضروری ہے کہ ہم ان عنوانات کو دیکھیں جن کے ماتحت اقبالؒ نے خودی کو بیان کیا۔مثلاً کائنات کی خودی …اسلام کی خودی…ملّتِ اسلامیہ کی خودی … عشق و عزم کی خودی…عمل کی خودی…فقر کی خودی…آزادی و حریت کی خودی، رفتار ِ زمانہ کی خودی اور سب سے اہم خودی’خود آگہی کی خودی۔اس غززل میں اقبال مسلمانوں کو یہ پیام دیتے ہیں کہ جب تک تم کوگ چاہے تم کوئی بھی ہو، عجمی ہو یا عربی ایک کلمے اور پرچم تلے ہو کر اور تمہارا دل اس بات کا گواہ ہو کہ ہر شے اللہ کے قبضہ قدرت میں ہے اور وہ ہر شے کا مالک
ہے دل سے گواہی دینا ہی ایمان کی تکمیل ہے۔
ہے دل سے گواہی دینا ہی ایمان کی تکمیل ہے۔
غزل ۳۔
فرہنگ:
آہِ سحر گاہی: عشقِ حقیقی میں صبح کو اْٹھ کر دْعا مانگنا
رومی: مولانا جلال الدین رومی( اقبال انہیں اپنا مرشد مانتے تھے)۔
کم کوش: کم کوشش کرنے والا
لا ہوتی: عالم بالا میں رہنے والا
اولیٰ: برتر
اسد اللہ: اللہ کا شیر مْراد حضرت علیؑ
رْوباہی: بزدلی
(۱)
جب انسان میں عشق کا جذبہ پیدا ہوتا ہے تو وہ انسان کو اپنی ذات سے آگہی دیتا ہے اس کی ذات کو اسی پر آشکار کرتا ہے۔ اقبال کے ہاں عشق ایسا جذبہ ہے جس کے بغیر خودی کی تکمیل نامکمل ہے خودی اس کے بغیر تقی کی منازل طے نہیں کر سکتی اور جب عشق سے سرشار ہوتا ہے تو اْس وقت غلاموںنکو بھی شہنشاہیت کے راز معلوم ہو جاتے ہیں۔
(۲)
عشق کے جذبے کی بدولت عطار اور رومی جیسے اور بھی بہت سے صوفیا ہوں سب کے سب آہِ سحر گاہی کی لذت سے آشنا ہوجاتے ہیں اور اپنے محبوب ،خالق کی توجہ کے طالب ہوتے ہیں۔ عشق کا جذبہ انسان کو احساس اور دردِ دل عطا کرتا ہے۔
(۳)
اے راہبرو اپنے ساتھ چلنے والوے لوگوں سے مایوس ہونا مناسب نہیں یہ لوگ محنت سے جی چرانے والے اور کوشش سے جلد کنارہ کرنے والے ضرو ہیں مگر ان میں ذوقِ عمل بہرحال موجود ہے۔ کسی بے ذوق شخص میں ذوق پیدا کرنا خاصا دقت طلب کام ہے لیکن جن لوگوں میں یہ صلاحیت پہلے سے موجود ہو ان سے نااْمید نہیں ہونا چاہیے کیونکہ ایسے شخص کو میدانِ عمل میں لانا اتنا مشکل نہیں ہوتا اس لیے راہنماؤں کو مایوس ہونے کی بجائے اپنے لوگوں کی ہمت بندھانی چاہیے۔
بقول اقبال:
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی ذرخیز ہے ساقی
اگر رہبر ان کی راہنمائی کرے تو لوگ منزل کی طرف چلنے کو آمادہ ہو جائیں گے۔
(۴)
اے عالم بالا کے پرندے! تیری پرواز بلند ہے لیکن اگر تو اس بلندی کو چھوڑ کر دابے دْنکے کی تلاش میں اپنے مقام سے نیچے آتا ہے تو یہاں کسی جال میں پھنس کر پرواز اور اپنے منصب سے دور ہو جائے گا محروم رہ جائے گا۔ بلند پرواز پرندوں کو اپنا رزق بلندی پر ہی تلاشنا چاہیے اپنا مقام اور مرتبہ قربان کر کے حاصل کی گئی چیز اقبال کے نزدیک بے مقصد اور بے معنی ہے۔
(۵)
اس شعر میں اقبال کہتے ہیں کہ میری نظر میں وہ مردِ درویش دارا ور سکندر جیسے بادشاہوں سے زیادہ بلند مرتبہ کا حامل ہے جس کے سائے میں پرورش پانے والے بھی حضرت علی کی سی خو بو رکھتے ہیں ۔
(۶)
اقبال نے اس شعر میں بیان کیا ہے کہ شیر کبھی بھی بزدلی کا مظاہرہ نہیں کرتا۔ اللہ کے شیر ہمیشہ حق گوئی اور بے باکی سے کام لیتے ہیں خواہ اس کام میں کتنا ہی نقصان اور خطرہ کیوں نہ ہو وہ جان دے دیتے ہیں لیکن حق گوئی ترک نہیں کرتے۔